خاندانی منصوبہ بندی کے پروگرام کی کامیابی کے لیے نکات


Spread the love

خاندانی منصوبہ بندی کے پروگرام کی کامیابی کے لیے نکات

فیملی کنٹرول پروگرام کی کامیابی کے لیے تجویز۔

پروگرام کی کامیابی کے لیے تجاویز بھارت میں آبادی پر قابو پانے اور خاندانی منصوبہ بندی کے پروگرام کی کامیابی کے لیے درج ذیل تجاویز ہیں۔

آبادی کی تعلیم – نوجوانوں کو آبادی سے متعلق تعلیم دی جانی چاہیے۔ اس تعلیم کا انتظام سکولوں میں ہونا چاہیے۔

فیملی ویلفیئر پروگرام کو موثر بنایا جائے- فیملی ویلفیئر پروگرام کو موثر بنانے کے لیے لوگوں کو وسیع تشہیر کے ذریعے اس بات کی ترغیب دی جائے کہ چھوٹا خاندان ان کے مفاد میں ہے۔ دیہات میں لوگوں میں مانع حمل ادویات مفت تقسیم کی جائیں۔ نس بندی کے لیے موبائل کلینک بڑھائے جائیں اور سال میں ایک بار ہر گاؤں میں نس بندی کیمپ لگائے جائیں۔ جن لوگوں نے نس بندی کے آپریشن کرائے ہیں، ان کی مناسب دیکھ بھال وقتاً فوقتاً معائنہ کرکے کی جانی چاہیے۔ اس پروگرام سے وابستہ ڈاکٹروں اور عملے کو مناسب تربیت دی جائے۔ فیملی ویلفیئر پروگرام کو اپنانے کے لیے کوئی دباؤ نہیں ہونا چاہیے۔ لوگوں کو سمجھایا جائے اور تیار کیا جائے۔ میڈیکل ٹرمینیشن آف پریگننسی ایکٹ بھارت میں یکم اپریل 1971 سے لاگو ہے، جس کے تحت ایک خاتون اپنے حمل کو رجسٹرڈ ڈاکٹر سے اسقاط کروا سکتی ہے، لیکن بھارت میں ایسے ہسپتالوں کی کمی ہے۔ خاص طور پر دیہی علاقوں میں جہاں اسقاط حمل کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے ایسے اسپتالوں اور تربیت یافتہ ڈاکٹروں کے لیے ان میں کام کرنے کا انتظام کیا جائے۔ نس بندی کے لیے آپریشن کے بجائے کوئی اور طریقہ ایجاد کیا جائے، تاکہ لوگ آپریشن کے ذہنی خوف سے آزادی حاصل کر سکیں۔

شادیوں، پیدائشوں اور اموات کی لازمی رجسٹریشن – شادیوں، پیدائشوں اور اموات کی رجسٹریشن کو لازمی بنایا جائے۔ اس سے خاندان کے افراد کی خود بخود گنتی ہو جائے گی اور اس سے خاندانی بہبود کے لیے ہدف والے جوڑے کی شناخت میں مدد ملے گی۔ کم عمری میں شادی کرنے والے شادی کی رجسٹریشن سے جان سکیں گے۔

علاقائی اور دیہی ضروریات کے مطابق پالیسی کی تشکیل – خاندانی منصوبہ بندی کے پروگرام کا خاکہ ہندوستان کے علاقائی تنوع اور دیہی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے بنایا جانا چاہیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ملک میں سماجی، معاشی، ثقافتی اور تعلیمی سطح پر اب بھی اختلافات پائے جاتے ہیں۔ آبادی کی شرح نمو اور خواتین کی تعلیم کی سطح میں بھی فرق ہے۔ کیرالہ، کرناٹک، تمل ناڈو میں آبادی میں اضافے کی شرح اتر پردیش، مدھیہ پردیش، بہار اور راجستھان کے مقابلے کم ہے۔ خواتین کی شادی کی عمر بھی ریاست کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہے۔ جنی

جن ریاستوں میں خواتین زیادہ تعلیم یافتہ ہیں وہاں شادی کی عمر بھی زیادہ ہے۔ اس لیے پسماندہ ریاستوں میں عمومی تعلیم اور خواتین کی تعلیم پر زور دیا جانا چاہیے۔

سماجی تحفظ کے پروگراموں میں اضافہ – حکومت کو چاہیے کہ وہ سماجی تحفظ کے پروگراموں میں اضافہ کرے اور انہیں موثر بنائے، تاکہ لوگ بڑھاپے میں سہارا حاصل کرنے کے لیے بچہ پیدا کرنے کے رجحان سے بچیں۔

دیہی ترقی اور خاندانی بہبود کے پروگراموں میں ہم آہنگی دیہی علاقوں میں جاری ترقیاتی منصوبوں کو خاندانی بہبود کے پروگراموں سے جوڑنا چاہیے۔ ہر ترقیاتی بلاک اور گرام سبھا کو دی جانے والی مالی امداد صرف خاندانی بہبود کے پروگرام میں شراکت کی بنیاد پر دی جانی چاہیے۔

کچھ سخت فیصلے لینے کی ضرورت ہے – فیملی ویلفیئر پروگرام کی کامیابی کے لیے حکومت کو سخت فیصلے لینے چاہئیں۔ حکومت ایسے لوگوں پر اضافی ٹیکس عائد کرے جن کے خاندان بڑے ہیں۔ عوامی نمائندگی رول میں ترمیم کر کے ایسے لوگوں کو الیکشن لڑنے کے لیے نااہل قرار دیا جائے۔ بڑے خاندان والے سرکاری ملازمین کو ترقی نہ دی جائے۔ کم عمری میں شادی کرنے والوں کو سرکاری ملازمت اور الیکشن لڑنے سے روک دیا جائے۔ اس سے خاندان کو قید رکھنے کا احساس بیدار ہوگا۔ آخر میں، ہم کہہ سکتے ہیں کہ خاندانی منصوبہ بندی کے پروگراموں کے مناسب نفاذ کے لیے تنظیمی سطح پر بہتری کی ضرورت ہے۔ ان پروگراموں کو ان طبقوں تک لے جانے کی ضرورت ہے جہاں وہ آج تک نہیں پہنچ سکے۔

ہندوستان میں خاندانی منصوبہ بندی توقع کے مطابق کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔ اس کی کامیابیاں ہمیشہ اہداف سے پیچھے رہی۔ درحقیقت روکی ہوئی پیدائش کا سہرا صرف خاندانی منصوبہ بندی کے پروگرام کو نہیں دیا جا سکتا۔ بہت سے سماجی، اقتصادی اور ثقافتی عوامل اس کے ذمہ دار ہیں۔ خاندانی منصوبہ بندی کا پروگرام اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ چوتھے پانچ سالہ منصوبے میں ہی شرح پیدائش کو 1978 تک 32 فی ہزار اور 25 فی ہزار تک کم کرنے کا ہدف حاصل نہیں کیا جا سکا۔ اس طرح ساتویں پلان میں شرح پیدائش کو 29.1 فی ہزار اور آٹھویں پلان میں 26.0 فی ہزار تک کم کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا تھا، جبکہ حقیقت میں انہی منصوبوں میں شرح پیدائش بالترتیب 30.2 فی ہزار اور 27 فی ہزار تھی۔ اس طرح برتھ کنٹرول کے کئی طریقوں کے اہداف پورے نہ ہو سکے۔ چھٹے منصوبے میں 24 ملین نس بندی کا ہدف تھا لیکن کامیابی 17 ملین رہی۔ ساتویں پانچ سالہ منصوبے میں نس بندی کا ہدف 31 ملین تھا جب کہ صرف 23.7 ملین افراد کو نس بندی کرائی جا سکی۔ اسی طرح 2001-02 میں صرف 4.7 ملین افراد کی نس بندی کی گئی۔


جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے