رشتہ داری کی اقسام


Spread the love

رشتہ داری کی اقسام

رشتہ داری کی دو اہم قسمیں بتائی جاتی ہیں جو تقریباً تمام معاشروں میں رائج ہیں۔ یہ شادی کی بنیاد پر رشتہ داری اور خون کی بنیاد پر رشتہ داریاں ہیں۔

1۔ Affinal Kinship: وہ رشتے جو سماجی یا قانونی طور پر جائز ازدواجی رشتوں سے نکلتے ہیں انہیں شادی سے متعلق رشتہ داری کہا جاتا ہے۔ اس فارم میں متعلقہ رشتہ داروں کو Affinal Kins کہا جاتا ہے۔ مثلاً شادی کے بعد مرد یا عورت نہ صرف شوہر یا بیوی بنتے ہیں بلکہ دوسرے رشتے بھی استوار کرتے ہیں۔ مرد کا شوہر نیز داماد، بہنوئی۔ بہنوئی، مسے وغیرہ کی تشکیل۔ اسی طرح عورت بیوی کے ساتھ ساتھ داماد، بہو، بھابھی، خالہ، بھابی وغیرہ بنتی ہے۔ ہر رشتہ دو انسانوں کے درمیان ہوتا ہے۔ جیسے – بہنوئی، بہنوئی، بہنوئی، بھابھی، ساس، داماد، شوہر بیوی وغیرہ۔ اس طرح شادی سے پیدا ہونے والی رشتہ داری کو شادی پر مبنی رشتہ داری کہا جاتا ہے۔

2 رشتہ داری: خون کے رشتوں کی بنیاد پر رشتہ داری کو متضاد رشتہ داری کہا جاتا ہے۔ اس شکل میں رشتہ داروں کو خون کے رشتہ دار کہا جاتا ہے۔ مثلاً والدین اور اولاد کا رشتہ، دو بھائیوں کا رشتہ، دو بہن بھائیوں کا رشتہ وغیرہ۔ اس تناظر میں یہ جاننا ضروری ہے کہ خون کی بنیاد پر رشتہ طے کرنے میں نہ صرف حیاتیاتی حقائق اہم ہیں بلکہ سماجی پہچان بھی اہم ہے۔ جیسے – اپنانے کا رواج عالمگیر ہے۔ گود لینے والے بیٹوں اور بیٹیوں کے ساتھ ہر جگہ ایسا سلوک کیا جاتا ہے جیسے وہ حیاتیاتی طور پر پیدا ہونے والے بچے ہوں۔ اسی طرح ڈی۔ ن مزمدار اور ٹی۔ ن مدن (D. N. Majumdar اور T. N. Madan) کہتے ہیں کہ بہت سے قدیم معاشروں میں بچے کی پیدائش میں باپ کا کردار نامعلوم ہے۔ اس کی مثال میلانیشیا کے ٹروبرینڈ آئی لینڈرز کی زندگی میں دیکھی جا سکتی ہے، جن میں روایتی طور پر بیوی کے شوہر کو بچے کا باپ سمجھا جاتا ہے۔ اس طرح رشتہ داری کے نظام میں سماجی پہچان حیاتیاتی حقیقت پر مسلط ہے۔

یہ ضرور پڑھیں

یہ ضرور پڑھیں

رشتہ داری کی اصطلاحات

(رشتہ داری کی اصطلاحات)

رشتہ داری کی اصطلاحات کے مطالعہ میں پہلی اہم شراکت ایل۔ ایچ۔ مورگن (ایل ایچ مورگن)۔ اس نے دنیا کے تمام حصوں میں مروجہ قرابت دار اسموں کا مطالعہ کیا اور انہیں دو اہم اقسام میں تقسیم کیا – درجہ بند قرابت کے اسم اور مخصوص یا وضاحتی رشتہ داری کے اسم۔

1۔ طبقاتی رشتہ داری کی شرائط: جب ایک ہی طبقے کے متعدد رشتہ داروں کو ایک ہی اسم یا خطاب کی اصطلاح سے مخاطب کیا جاتا ہے، تو اسے درجہ بندی کی قرابت کی اصطلاحات کہا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر – سیما ناگوں میں ماں، خالہ، خالہ وغیرہ کے لیے ‘آجا’ کا لفظ استعمال ہوتا ہے، دیہاتوں میں ماں، خالہ، خالہ وغیرہ کے لیے اجا کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ لفظ ‘اوپ’ کا باپ چچا، مسے وغیرہ کے لیے ہے۔ اس کے ساتھ مختلف نسلوں اور مختلف جنسوں کے لوگوں کو بھی ایک ہی اسم سے مخاطب کیا جاتا ہے۔ دادا، ماموں کوکی قبیلے میں لفظ ‘ہپو’ کے ذریعہ۔ بہنوئی، ماموں، بھابھی اور بھانجے یعنی تین نسلوں کے رشتہ داروں کو مخاطب کیا جاتا ہے۔ انگامی ناگوں میں ‘باری’ کا لفظ بڑے بھائی، بیوی کی بہن، خالہ وغیرہ، یعنی مختلف جنسوں کے رشتہ داروں کو مخاطب کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

2 خاص یا وضاحتی رشتہ داری

مزمدار اور مدن کہتے ہیں کہ ‘مخصوص یا وضاحتی رشتہ داری کے اسم حقیقی تعلق کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اور صرف ان مخصوص افراد کے لیے استعمال ہوتے ہیں جن کے سیاق و سباق میں یا جن سے مخاطب ہونے کے لیے بات کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر – ہندو معاشرے میں لفظ باپ اس شخص کے لیے استعمال ہوتا ہے جس نے ہمیں جنم دیا ہے۔ اسی طرح ماں، بیوی، بیٹا، بیٹی وغیرہ ایسے اسم ہیں جو صرف کسی خاص رشتہ دار کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ مجمدار اور مدن کہتے ہیں کہ دنیا کا کوئی علاقہ ایسا نہیں ہے جہاں خالص درجہ بندی والے اسم یا خالص مخصوص رشتہ داری کے اسم استعمال کیے گئے ہوں۔

رشتہ داری کے رواج

(رشتہ داری کے استعمال)

رشتہ داری کے نظام میں دو رشتہ داروں کے درمیان رویے کے نمونے شامل ہیں، رشتہ داری کے رواج کہلاتے ہیں۔ یہ رسومات مختلف قسم کی ہیں۔ درحقیقت تمام رشتہ داروں کے ساتھ برتاؤ کا طریقہ ایک جیسا نہیں ہے اور نہ ہی رویے کی بنیاد ایک ہے۔ والدین کے ساتھ ایک شخص کا سلوک احترام سے متعلق ہے۔ پھر بیوی کے ساتھ سلوک محبت کا، بچوں کے ساتھ شفقت کا اور بھابھی کے ساتھ مٹھاس کا۔ چونکہ رشتہ داروں کے ساتھ سلوک اور سلوک کی بنیاد میں فرق ہے اس لیے رشتہ داری کی رسمیں بھی مختلف ہیں۔ اہم ہیں

اجتناب کا رواج مقبول ہے۔ اس رسم کے مطابق کچھ رشتہ دار ایسے ہوتے ہیں جو دو افراد کے درمیان ایک خاص رشتہ قائم کرتے ہیں لیکن یہ ہدایت دیتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے سے دور رہیں اور جہاں تک ممکن ہو باہمی میل جول میں حصہ نہ لیں۔ مثلاً دولہا اور ساس سسر، بہنوئی اور بہنوئی وغیرہ سے اجتناب کا رواج عام ہے۔ اسی طرح ساس اور داماد سے بچنے کا رواج یوکادھیر قبیلے میں پایا جاتا ہے۔

مذاق کا رشتہ: رشتہ داری کے نظام میں مذاق کا رشتہ عام ہے۔

, یہ وہ رواج ہے جو دو لوگوں کو پیارے رشتے میں باندھتا ہے اور دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ہنسنے اور مذاق کرنے کا حق دیتا ہے۔ مثال کے طور پر بھابھی، بھابھی، بھابھی، بھابھی، پھوپھی، بھانجے، پھوپھی وغیرہ کے درمیان جھگڑے کے رشتے پائے جاتے ہیں۔ بہنوئی، بھابھی اور بھابھی اور بھابھی کے درمیان مضحکہ خیز تعلقات اکثر ہر معاشرے میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ لیکن دادا، نواسی اور بھتیجے اور خالہ کے درمیان میل جول کا رشتہ قدیم معاشروں کا خاصہ ہے۔ جب کہ ہوپی قبیلے میں بھتیجے اور خالہ کی جھڑپ عام ہے، اوراون اور بیگا قبائل میں، دادی-پوتے اور دادا-پوتی کے درمیان جھڑپ کا رشتہ پایا جاتا ہے۔

, Matuleya (Avunculate): Matuleya پریکٹس Matriarchal معاشروں کی خاصیت ہے۔ جب ماموں اپنے بھانجوں کی زندگی میں نمایاں مقام رکھتے ہیں، ان کی قربت کی بنیاد ہوتے ہیں، والد سے زیادہ ماموں کی ذمہ داری نبھاتے ہیں، بھتیجوں کی ماموں سے خاص وفاداری، ماموں سے بھانجے کو جائیداد کی منتقلی پھر اس طرح کے رشتہ داری کے نظام کو متولیہ کہا جاتا ہے۔ ماموں کی ایسی اتھارٹی کو ماموں کی آمریت کہتے ہیں۔ اگر کزن اور بھانجیاں ماموں کے گھر میں رہ کر بڑے ہو جائیں تو اس صورت حال کو مادری رہائش گاہ کہا جائے گا۔ اس کا پھیلاؤ شمال مغربی امریکہ کے ہیدا قبیلے، ٹروبرینڈ قبیلے، ہوپی اور جونی قبیلے وغیرہ میں دیکھا گیا ہے۔

, امیتیٹ: یہ پدرانہ معاشروں کی خصوصیت ہے۔ جب ایک خالہ (باپ کی بہن) باپ کے مقابلے میں اپنے بھانجوں اور بھانجیوں کی زندگی میں ایک خاص مقام رکھتی ہے، بچوں کے مفاد میں خصوصی ذمہ داری ادا کرتی ہے، تو اس طرز عمل کو پتریشویہ (امیتے) کہا جاتا ہے۔ یہ ہندوستان کے ٹوڈا، جزیرہ بیکس، جنوبی افریقہ کے قبائل میں رائج ہے۔

ثانوی پتہ (Tecnonymy): نام ظاہر نہ کرنے کا انگریزی لفظ یونانی زبان سے ماخوذ ہے۔ اسے سوشل سائنس میں پہلے لانے کا سہرا E. بی۔ ٹائلر ( ای بی ٹائلر ) بہت سے ہندو خاندانوں میں یہ رواج نہیں ہے کہ بیوی اپنے شوہر کا نام لیتی ہے جب کسی شخص کے ذریعے کسی رشتہ دار سے مخاطب ہوتی ہے نہ کہ ان سے براہ راست مخاطب ہوتی ہے۔ ایسے گھرانوں میں بیوی اپنے شوہر کو دوسرے نام (انونام) سے جوڑ کر مخاطب کرتی ہے۔ کنیت کی صورت میں بیٹا بیٹی یا دیگر رشتہ دار ہو سکتے ہیں۔ اگر بیٹے کا نام شانو ہے تو شوہر کو شانو کا باپ کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے۔ ٹائلا نے اپنے مطالعے میں 30 قبائل کا ذکر کیا ہے، جہاں یہ رائج ہے۔ ان قبائل میں بنیادی طور پر جنوبی افریقہ کا بیچیانہ، مغربی کینیڈا کا کرو، ہندوستان کا خاصی، سائبیریا کا سونا وغیرہ آتے ہیں۔

, شریک پیدائش یا کاویڈ: رشتہ داری کی شریک پیدائش ایک منفرد عمل کے طور پر جانا جاتا ہے۔ جب ایک عورت جو بچے کو جنم دیتی ہے، اپنے شوہر کے ساتھ ساتھ، بھی سختی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو، تو اسے سہاکشتی کہتے ہیں۔ اس کا پھیلاؤ ہندوستان کے خاصی اور ٹوڈا قبائل میں اور ہندوستان سے باہر دیکھا گیا ہے۔ اس رواج کے مطابق، شوہر کو وہی کھانا کھانا ہے جو اس کی حاملہ بیوی کو کھایا جاتا ہے، تمام ممانعتوں پر عمل کرنا پڑتا ہے اور تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

یہ بھی ضرور پڑھیں

یہ بھی ضرور پڑھیں

رشتہ داری کی اہمیت

(قرابت داری کی اہمیت)

ہندوؤں میں رشتہ داری ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اس کی اہمیت روزمرہ کی زندگی میں، مختلف سماجی، ثقافتی، مذہبی رسومات، سماجی اجتماعات اور مشکل حالات میں دیکھی جا سکتی ہے۔ کسی بھی معاشرے کی ساخت اور افراد کے باہمی تعلقات کو رشتہ داری کے نظام سے معلوم کیا جا سکتا ہے۔ کسی شخص کا نسب، جانشینی، حیثیت وغیرہ کا تعین رشتہ داری سے ہوتا ہے۔ اس کی اہمیت کو اس طرح سمجھا جا سکتا ہے۔

1۔ حیثیت کا تعین: ہر معاشرے میں کسی فرد کی حیثیت کا تعین بڑی حد تک اس کے رشتہ داروں کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ کسی کے نسب کی تاریخ رشتہ داری کی مدد سے معلوم کی جا سکتی ہے۔ اس کے ساتھ رشتہ داروں کی تعداد بھی اس کے ذریعے معلوم ہوتی ہے۔ رشتہ داروں کی تعداد سے کسی خاص خاندان اور قبیلے کی طاقت معلوم ہوتی ہے جس کی وجہ سے انسان کی حیثیت کا تعین ہوتا ہے۔ کچھ روایتی معاشروں میں رشتہ داری کی وسیع شکل کو وقار کی علامت سمجھا جاتا ہے۔

2 خاندان اور شادی کی بنیاد: مورگن نے رشتہ داری کی اصطلاحات کو خاندان اور شادی کے نظام کی ابتدا اور ترقی کو سمجھنے کی بنیاد سمجھا ہے۔ رشتہ داری کی شرائط افراد کے درمیان قربت اور فاصلے کا احساس دلاتی ہیں۔ لڑکے یا لڑکے کی شادی کے لیے جیون ساتھی کے انتخاب میں رشتہ داروں کا اہم کردار ہوتا ہے۔ نیز، خاندان رشتہ داری کے بڑے نظام کا ایک لازمی حصہ ہے۔ خاندانوں کے افراد کے درمیان سماجی تعلقات رشتہ داری کی ذمہ داریوں پر مبنی ہیں۔

3۔ ذہنی اطمینان: رشتہ داری کا احساس ذہنی اطمینان دیتا ہے۔ اس قسم کا رجحان نہ صرف سادہ اور دیہی معاشروں میں بلکہ جدید شہری معاشروں میں بھی پایا جاتا ہے۔ شہر میں نقل مکانی کرنے والے اپنی رہائش گاہوں کی قربت میں زیادہ مطمئن اور محفوظ محسوس کرتے ہیں۔

4. لامحدود ذمہ داری: سماجی زندگی میں قرابت دار گروہ کا کردار ایسا ہے کہ تقریباً تمام افراد ایک دوسرے کے لیے لامحدود ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔

چلو واہ ایک طرف یہ رشتہ داروں کے لیے فائدہ مند ہے اور دوسری طرف قرابت دار گروہوں میں فرد کو دوسرے فرد کے کردار اور ذمہ داریوں کو نبھانے کی تربیت دی جاتی ہے۔ رشتہ داری میں لوگ ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔

5۔ سماجی تحفظ: ناٹدارا گروپ فرد کو سماجی تحفظ فراہم کرتا ہے۔ یہ تب معلوم ہوتا ہے جب کوئی شخص بحران کی حالت میں ہوتا ہے۔ ایسی صورت حال میں جانے کی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔ رشتہ داری گروپ کی وجہ سے رشتہ داری تنہائی اور بے بس شخص کو تقریبات کے موقع پر ذہنی سکون اور خوشی فراہم کرتی ہے – منڈن، اپنائن، شادی وغیرہ۔

6۔ سماجی تنظیم میں یکجہتی: رشتہ داری کا نظام سماجی تنظیم کو مضبوط کرتا ہے۔


جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے