صنف اور استحکام
GENDER AND STRATIFICATION
سماجی سطح بندی کی سب سے قدیم بنیاد صنفی امتیاز ہے۔ مرد اور عورت انسانی معاشرے کی بنیاد ہیں۔ کسی کی عدم موجودگی میں معاشرے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے باوجود اکثر معاشروں میں مردوں کا درجہ عورتوں سے بلند سمجھا جاتا ہے۔ زندگی کے مختلف شعبوں میں مردوں کو جتنی سہولتیں اور آزادی ملتی ہے، اتنی زیادہ خواتین کو نہیں ملتی۔ عورتوں کا بنیادی کام تولید، گھر کی دیکھ بھال اور مردوں کے تابع ہونا سمجھا جاتا تھا۔
جب کسی معاشرے میں جنس کی بنیاد پر اونچ نیچ کا درجہ دیا جاتا ہے تو اس حالت کو صنفی عدم مساوات کہا جاتا ہے۔ ہندوستانی معاشرے میں شروع سے ہی مردوں نے ایک گروہ کے طور پر خواتین پر غلبہ حاصل کیا ہے اور خاندان اور معاشرے میں ان کی حیثیت کو پست رکھا ہے۔ صنفی عدم مساوات کا مسئلہ بنیادی طور پر خواتین سے متعلق مسئلہ ہے۔ نظریاتی نقطہ نظر سے ہندوستانی معاشرے میں خواتین کی حیثیت کو مثالی کے طور پر پیش کیا گیا ہے لیکن عملی نقطہ نظر سے ان کے ساتھ امتیازی رویہ اور ان کی تحقیر کی گئی ہے۔ تذلیل اور اذیت کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ اب بھی ان کی رائے جاننے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا جاتا، انہیں مردوں کے برابر نہیں سمجھا جاتا اور ان کی عزت نہیں کی جاتی۔ یہ صنفی عدم مساوات ہے۔ مرد اور عورت کے تعلقات میں صرف ایک مضبوط شخصیت والا شخص ہی بااثر مقام حاصل کرتا ہے۔ عام طور پر، مرد عورت کو حکم دینے کا حق محسوس کرتا ہے، حالانکہ بعض صورتوں میں عورت بھی مرد پر قابو پانے کی پوزیشن میں ہوتی ہے۔ ہندوستان میں شروع سے ہی خواتین کی حیثیت مردوں کے برابر نہیں رہی ہے بلکہ پست رہی ہے۔ خاندانی اور سماجی فیصلوں میں ان کی شرکت کم پائی جاتی ہے۔
سائنسدانوں نے مختلف طریقوں سے صنفی عدم مساوات کی وضاحت کی ہے۔ مثال کے طور پر، ماہرین حیاتیات کا خیال ہے کہ خواتین میں حیاتیاتی نقطہ نظر کے مقابلے میں ذہانت اور طاقت کی کمی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عورتیں مردوں کی ماتحت ہیں اور وہ مردوں جیسا درجہ حاصل نہیں کر سکتیں۔ ماہرین بشریات کا خیال ہے کہ سماجی ارتقا کی ابتدائی شکل پدرانہ تھی۔ خاندان پر مردوں کا غلبہ تھا۔ عورتیں مردوں کے ماتحت رہیں، یہیں پر آج بھی صنفی عدم مساوات موجود ہے۔ ماہرین نفسیات کا خیال ہے کہ نفسیاتی طور پر خواتین مردوں کے مقابلے کمزور ہوتی ہیں۔ نتیجتاً خاندان اور معاشرے میں ان کی حیثیت مردوں سے کم ہے اور ان کا مردوں کے تابع ہونا فطری امر ہے۔ ماہرین سماجیات کا خیال ہے کہ خواتین کا مردوں سے کم درجہ کا ہونا معاشرے اور ثقافت کا تحفہ ہے۔ ہماری سوچ اور رویے کا تعین سماجی اقدار اور اصولوں سے ہوتا ہے۔ سماجی قدر کے نمونے مردوں کو خاص اہمیت دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عورتوں کا درجہ مردوں سے کم ہے۔ اس کے نتیجے میں صنفی عدم مساوات جیسا مسئلہ پیدا ہوا۔ اس طرح یہ کہا جا سکتا ہے کہ جب عورتوں کی حیثیت کا تعین جنس کی بنیاد پر کیا جاتا ہے اور انہیں مردوں کے تابع سمجھتے ہیں تو اسے صنفی عدم مساوات کہا جاتا ہے۔
صنفی عدم مساوات کے مسائل
(جنسی عدم مساوات کے مسائل)
معاشی انحصار: صنفی عدم مساوات کا ایک بڑا مسئلہ عورتوں کا مردوں پر معاشی انحصار ہے۔ آدمی اپنی آمدنی اپنی مرضی کے مطابق خرچ کر سکتا ہے۔ ایک طرف عورتیں معاشی طور پر مردوں پر منحصر ہیں۔ نتیجتاً وہ اپنے شوہر کی آمدنی اپنی مرضی کے مطابق خرچ نہیں کر سکتی۔ دوسری طرف جو خواتین مالی طور پر خود مختار ہیں وہ بھی شادی سے پہلے اور شوہر کی مرضی کے مطابق خرچ کرتی ہیں۔
کردار کا تنازعہ: صنفی عدم مساوات کا ایک بڑا مسئلہ خواتین کے ساتھ منسلک کردار کا تنازعہ ہے۔ آج کی کام کرنے والی خواتین دفتر یا دیگر جگہوں پر 8 سے 10 گھنٹے کام کرتی ہیں جس کی وجہ سے انہیں لاتعداد مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ گھریلو زندگی کو دفتر کے معمولات سے ہم آہنگ کرنا پڑتا ہے، پھر اسے گھر کے کاموں اور روایتی روٹین سے مختلف مقامات پر ترتیب دینا پڑتا ہے۔ اس سے کردار کشی کا مسئلہ جنم لیتا ہے۔
جائیداد کے حقوق سے متعلق مسئلہ: صنفی عدم مساوات کا ایک بڑا مسئلہ خواتین سے متعلق جائیداد کے حقوق کا ہے۔ قانونی طور پر ماں باپ کی جائیداد میں بیٹی کا، شوہر کے مال میں بیوی کا اور بیٹے کی جائیداد میں ماں کا حق ہے۔ لیکن عملی طور پر ایسا نہیں ہے۔ آج بھی والدین کی جائیدادیں بیٹوں میں تقسیم ہیں۔ ذہنی طور پر بھی خط اپنے حقوق کو قبول نہیں کرتا۔ دیہی علاقوں میں خواتین ان حقوق سے بھی کم آگاہ ہیں۔
سیاسی عدم مساوات: صنفی عدم مساوات کا ایک بڑا مسئلہ خواتین کی سیاسی شرکت میں دیکھا جاتا ہے۔ زیادہ تر خواتین اپنے شوہر یا خاندان کے دیگر مردوں کی خواہش کے مطابق مطلوبہ شخص کو ووٹ دیتی ہیں۔ سیاسی میدان میں خواتین کی شرکت کم ہے۔ پنچایتی راج نظام کے مطابق مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والی خواتین کے فیصلوں پر ان کے شوہروں یا دیگر مرد ارکان کا اثر دیکھا جاتا ہے۔
ازدواجی عدم مساوات: مرد اور عورت شادی کے عمل کے ذریعے خاندانی زندگی میں داخل ہوتے ہیں۔ لیکن شادی کے عمل میں دونوں کے درمیان واضح تفاوت ہے۔ جیون ساتھی کے انتخاب میں جتنی آزادی کی جنگ لڑی جا رہی ہے اتنی ہی روایت کی پیروی کی جا رہی ہے۔
لڑکوں کے پاس اتنی لڑکیاں نہیں ہوتیں۔ آج بھی لڑکی کی طرف سے لڑکوں کو جہیز دینے کا رواج ہے۔
خاندان میں عدم مساوات: مرد اور عورت کے درمیان عدم مساوات کی شکلیں خاندان میں واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہیں۔ خاندان کے اندر – کھانے پینے، صفائی ستھرائی، مہمانوں کی مہمان نوازی وغیرہ کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی ذمہ داری صرف خواتین کے لیے سمجھی جاتی ہے۔ گھریلو تشدد – جہیز کی وجہ سے اموات، بیوی کی مار پیٹ، جنسی زیادتی، بیواؤں اور بوڑھوں کے ساتھ ناروا سلوک وغیرہ – عدم مساوات کا نتیجہ ہے۔
تعلیمی عدم مساوات: اگرچہ آزادی کے حصول کے بعد خواتین کی تعلیم میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے، لیکن جتنی بیداری لڑکوں کی تعلیم کے تناظر میں دیکھی جاتی ہے، لڑکیوں کے تناظر میں اتنی نہیں ہے۔ جہاں لڑکوں کو ہر قسم کی تعلیم کے لیے استثنیٰ حاصل ہے وہیں لڑکیوں کے حوالے سے ایک خاص قسم کی تعلیم دینے کی بات کی جاتی ہے۔ آج بھی دیہی علاقوں میں لڑکیوں کے حوالے سے ایک خاص قسم کی تعلیم دینے کی بات کی جاتی ہے۔ آج بھی دیہی علاقوں میں لڑکیوں کی تعلیم کا فیصد کم ہے۔
سماجی تشدد: خواتین کے ساتھ جو استحصال اور تشدد ہو رہا ہے وہ بنیادی طور پر عدم مساوات کی علامت ہے۔ آج کے معاشرے میں بیوی، بیٹی، بہو کو لڑکیوں کے قتل پر مجبور کرنا، عورتوں سے چھیڑ چھاڑ، جائیداد میں عورتوں کو حصہ دینے سے انکار، جہیز کے لیے داماد پر بہو کا تشدد، سینئر افسران کی طرف سے جونیئر کام کرنے کے واقعات۔ خواتین کے ساتھ بدسلوکی عام ہے۔