گلوبلائزیشن، لبرلائزیشن GLOBALIZATION AND LIBERALIZATION


Spread the love

گلوبلائزیشن، لبرلائزیشن

GLOBALIZATION AND LIBERALIZATION

 

(عالمگیریت):

گلوبلائزیشن یا گلوبلائزیشن کے لغوی معنی پوری زمین یا پوری دنیا کو ایک دائرہ بنانا ہے۔ اس کا مطلب مرکزی نظام ہے۔ نئے سیاق و سباق میں عالمگیریت ایک ایسا نظام ہے جس میں سرمایہ قومی حدود میں آزادانہ طور پر منتقل ہوتا ہے اور آزاد منڈی کے نظام کو فروغ دیا جاتا ہے۔ عالمگیریت ایک نیا عمل ہے جو 1980 کی دہائی کے وسط میں شروع ہوا اور 1990 کی دہائی میں شروع ہوا۔ بین الاقوامی سماجیات کے ایک اداریے میں گوران تھربن نے اسے اکیسویں صدی میں سماجی علوم کا قریب ترین ورثہ قرار دیا ہے۔ امیت بھادوری اور دیپک نیر نے کہا کہ ہندوستان نے جو لبرلائزیشن کی پالیسی اپنائی ہے وہ خود ایک قدامت پسند نظام ہے۔ اس کی عملی شکل یہ ہے کہ ایک گاؤں میں پوری دنیا کے کھانے پینے، رہنے میں رواداری، رہائش میں ایک قسم کی مساوات ہو، یعنی وہ پوری دنیا میں پیداوار اور استعمال کو ایک شکل دینا چاہتا ہے۔ ماہرین معاشیات اور سماجیات کے مطابق عالمگیریت کے تین اہم پہلو

عالمگیریت نے بین الاقوامی منڈی کھول دی ہے۔ کسی ایک ملک کا فرد دوسرے ملک میں سرمایہ کاری کر سکتا ہے۔

بین الاقوامی سرمایہ کاری آسانی سے کی جا سکتی ہے۔ کسی ایک ملک کا فرد دوسرے ملک میں سرمایہ کاری کر سکتا ہے۔

بین الاقوامی مالی امداد کو معیشت میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح اگر دیکھا جائے تو عالمگیریت کی شکل کے دو ستون ہیں۔ جس سے اس طرح 1. ملک کی سرحد کو اقتصادی رکاوٹوں سے پاک کرنا، یعنی ملک کی سرحد اشیاء کی تجارت، سرمایہ کاری اور دیگر سرگرمیوں میں رکاوٹ نہ بنے۔ 2. ریاست کا کردار امن و امان تک محدود ہونا چاہیے، یعنی ریاست معاشی سرگرمیوں میں مداخلت نہ کرے۔ گلوبلائزیشن کے عمل کو فعال اور کامیاب بنانے میں ٹیکنالوجی سب سے بڑا کردار ادا کرتی ہے کیونکہ یہ بغیر کسی سبز پھٹکڑی کے ملک کی حدود سے تجاوز کرتی ہے اور اس کی توسیع اس کی کامیابی کی کنجی ہے۔ عالمگیریت کے عمل میں، ہم نہ صرف ایک نئی صنعت کو بیان کرتے ہیں بلکہ نئی سوچ، نئے خیالات اور نئی ثقافت کو بھی قبول کرتے ہیں۔ 1991 میں عالمگیریت کے نتیجے میں، ہندوستانی مارکیٹ میں بھی نئے عمل شروع ہوئے ہیں 1. کھلی بین الاقوامی تجارت 2. بین الاقوامی سرمایہ کاری 3. بین الاقوامی مالیات نے مذکورہ بالا نئے عمل اور عالمگیریت نے ہندوستانی معاشرے کو بھی متاثر کیا ہے، جس پر بحث کی گئی ہے۔ لبرلائزیشن کا اثر

یہ ضرور پڑھیں

یہ ضرور پڑھیں

لبرلائزیشن

(لبرلائزیشن):

لبرلائزیشن وہ عمل ہے جس میں ٹیکس عائد تجارت کا نظام ہوتا ہے اور درآمد، برآمد اور سرمایہ کاری وغیرہ پر حکومتی کنٹرول کو کم سے کم کیا جاتا ہے۔ ایڈم سمتھ نے سب سے پہلے ‘عدم مداخلت’ کے اصول میں اس پر بحث کی اور اس کی تائید بھی کی۔ لبرلائزیشن ایک معاشی حکمت عملی ہے جس میں پورا معاشی نظام اوپن مارکیٹ سسٹم پر مبنی ہے۔ لبرلائزڈ معیشت میں دو اہم تصورات کام کر رہے ہیں۔ جو کہ درج ذیل ہیں۔

استحکام اور

2. ساختی ایڈجسٹمنٹ

استحکام میں وہ پروگرام شامل ہیں جو سماجی و اقتصادی بحران سے بچنے کے لیے اپنائے جاتے ہیں، جن میں قلیل مدتی قرضوں کی قسطیں ادا کرکے بڑھتی ہوئی مہنگائی کو روکا جاتا ہے۔

اس کا دوسرا اہم تصور سٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ ہے، جس کے تحت معاشی ایڈجسٹمنٹ اور کچھ معاشی اصلاحات کرنی پڑتی ہیں، جن کا تعلق بنیادی طور پر پالیسی رولز سے ہوتا ہے۔ جس کا مقصد

سکریپ کو تجارتی بنانا

نجی شعبے کی نجکاری اور فروغ
معیشت کو مزید کھلا پن فراہم کرنا اور
مارکیٹ فورسز پر زیادہ انحصار کرنا وغیرہ۔

لبرلائزیشن کا عمل عالمگیریت کے عمل سے اس لحاظ سے مختلف ہے کہ عالمگیریت ارتکاز کی بات کرتی ہے جبکہ لبرلائزیشن کم سے کم کنٹرول کی بات کرتی ہے۔

لبرلائزیشن کے چند اہم حقائق درج ذیل ہیں۔

درآمدات پر حکومتی کنٹرول کا خاتمہ
ٹیکس کے ڈھانچے کو تبدیل کریں۔
نئی پالیسیاں بنانا جس سے صنعتی طاقت کی مارکیٹنگ میں مدد ملے۔
زرمبادلہ کی پالیسی میں اضافہ کرکے سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرنا۔

بی بی مشرا کے مطابق ہندوستان میں صنعت کاری کا عمل 1840 میں ہی شروع ہو گیا تھا لیکن آزادی سے قبل سامراجی تسلط کی وجہ سے ان کی حالت مزید خستہ رہی۔ 1948 سے مخلوط نظام معیشت کو اپنا کر ان کی بحالی کی کوشش کی گئی اور 1956 میں نئی ​​صنعتی پالیسی کا اعلان کیا گیا، جس کے تحت بنیادی اور کچھ اہم صنعتیں پبلک سیکٹر کے لیے مختص کی گئیں اور باقی نجی شعبے کے لیے چھوڑ دی گئیں۔ لیکن یہ پالیسی مختلف وجوہات کی بنا پر کامیاب نہ ہوسکی اور 70 کی دہائی تک ہندوستان غیر ملکی قرضوں میں ڈوب کر قرضوں کے جال میں پھنس گیا اور لبرلائزیشن اور پرائیویٹائزیشن کا عمل آہستہ آہستہ شروع ہوا اور 90 کی دہائی میں 1991 میں گرتی معیشت اور مقروض ہو گئی۔ بین الاقوامی مالیاتی ایجنسیوں کے دباؤ کے تحت لبرلائزیشن اور پرائیویٹائزیشن کو اپنانا بھارت کی مجبوری بن گیا۔ چنانچہ 1991 میں بھارت نے ایک نئی اقتصادی پالیسی کا اعلان کیا، جس میں لبرلائزیشن اور پرائیویٹائزیشن کو ترجیح دی گئی، جس کے سنگین اثرات بھارتی زندگی پر نظر آرہے ہیں۔ جس پر مزید بحث کی جا سکتی ہے۔

سماجی عدم مساوات: امیر اور غریب کے درمیان خلیج وسیع ہو گئی ہے۔ امیر امیر تر ہو گیا ہے اور غریب کی غربت بھی بڑھ گئی ہے۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق 36 فیصد لوگ اب بھی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں جبکہ اصل صورتحال اس سے بھی زیادہ خوفناک ہے۔ 70 اور 80 کی دہائی میں

ربی میں ہر سال 2 فیصد کمی واقع ہو رہی تھی لیکن 1991 سے 97 کے درمیان اس میں کوئی کمی نہیں آئی بلکہ مزید بڑھ گئی۔ آج ہر تیسرا ہندوستانی انتہائی غربت میں زندگی گزارنے پر لعنت بھیج رہا ہے۔

یہ بھی ضرور پڑھیں

یہ بھی ضرور پڑھیں

چھوٹے پیمانے اور کاٹیج انڈسٹریز کا زوال: مواقع کی تنگی اور بے روزگاری کی وجہ سے ان سے وابستہ مزدوروں اور کسانوں کی حالت قابل رحم ہے اور وہ فاقہ کشی کا شکار ہیں۔ 1986-87 میں بے روزگاروں کو روزگار ملنے کی شرح 6.6 فیصد تھی جو 1995-96 میں کم ہو کر 3.7 فیصد رہ گئی۔ پچھلے 10 سالوں میں 36% چھوٹی صنعتیں بند ہو چکی ہیں اور اگلے 2 یا 3 سالوں میں 20% مزید بند ہونے کا امکان ہے۔

دیہی روایتی صنعتیں مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہیں اور ان کی جگہ مغرب کی مشینی مصنوعات آنا شروع ہو گئی ہیں اور یکم اپریل 2001 سے 1429 اشیاء پر سے پابندی بھی اٹھا لی گئی ہے۔ اس سے حالات دن بدن خراب ہوتے جائیں گے۔

دیہی برادری کی کم اہمیت: نئی پالیسیوں کی وجہ سے دیہی برادری کی اہمیت پہلے سے زیادہ کم ہوئی ہے اور لوگوں کی شہروں کی طرف رغبت بڑھ گئی ہے۔ جس کی وجہ سے شہروں میں طرح طرح کے مسائل جنم لے رہے ہیں، جن کو حل کرنے کی نہ حکومت اور نہ ہی عوام میں ہمت ہے۔

خاندان میں تناؤ: اس سے نہ صرف مشترکہ خاندانوں پر دباؤ بڑھ گیا ہے بلکہ جوہری خاندان بھی تناؤ میں آ گئے ہیں۔ مارکیٹنگ کی طرف خواتین کا رغبت بڑھ گیا ہے اور وہ روزگار کی تلاش میں گھروں سے باہر نکل گئی ہیں جس کی وجہ سے گھر کے تئیں ان کی ذمہ داریاں کم ہو گئی ہیں اور نہ صرف خاندان بلکہ معاشرہ بھی تناؤ اور بے ترتیبی کی صورتحال سے دوچار ہے۔ طلاق کی شرح میں اضافہ ہوا ہے اور گھر سے باہر خواتین بھی بگڑی ہوئی ذہنیت کا شکار ہو چکی ہیں۔ اس کی وجہ سے ہندوستانی ثقافت کی گروہی نوعیت میں کمی آئی ہے جو کہ مدھوکیشور کی طرف سے ایک مثبت تبدیلی ہے۔

ثقافتی اثر: اس کے اثرات کو ثقافتی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو یہ اور بھی خطرناک معلوم ہوتا ہے۔ آج نوجوان مردوں اور عورتوں کو ٹی وی کے ذریعے نئے رشتوں کے بارے میں بتایا جا رہا ہے۔ تعلیم اور تفریح ​​کے نام پر ثقافت کو تباہ کیا جا رہا ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ غیر ملکی منظم فلموں میں جس طرح کی عریانیت اور تشدد کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے اس کا اثر پڑے گا۔ یہ بات صرف منظم فلموں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ مقامی چینلوں کے سیریل میں نوجوانوں کو تشدد، لوٹ مار اور عصمت دری کے نت نئے طریقوں سے آگاہ کیا جا رہا ہے۔ فیشن کے نام پر لڑکیوں کو نیم برہنہ دکھایا جا رہا ہے اور کنڈوم وغیرہ کا کھلے عام پرچار کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے خواتین کے بارے میں ہمارا رویہ تبدیل ہو رہا ہے اور ہم انہیں ماں، بہو اور بیٹی کے طور پر دیکھنے کے بجائے ان کو اپنا سمجھتے ہیں۔ جس کا نتیجہ راستے میں قتل، ڈکیتی اور چھیڑ چھاڑ ہے۔

تعلیمی نظام پر اثرات: آج ہم اپنی تاریخ اور ادب پر ​​فخر نہیں کرتے، لیکن غیر ملکی ادب کی تعریف کرتے نہیں تھکتے۔ میڈیا بھی اپنی ذمہ داریوں سے دور ہو گیا ہے اور اب صرف پیسہ کمانے کا ذریعہ بن گیا ہے۔ تعلیم کا مفہوم اب معاشرے کا آئینہ نہیں رہا بلکہ روٹی کمانا بن گیا ہے۔

زراعت پر اثرات: زراعت جو کبھی ہماری معیشت کی ریڑھ کی ہڈی اور ہماری روایتی ثقافت کی علامت سمجھی جاتی تھی، لبرلائزیشن کے اس دور میں بھی اچھوت نہیں رہی۔ اس پورے نظام پر غیر ملکی کمپنیوں نے زہریلا مزہ بنا رکھا ہے۔ وہ پیٹنٹ اور دیگر ذرائع سے اس پورے زرعی نظام کو اپنے کنٹرول میں لانے کے لیے بے چین نظر آتے ہیں۔

مالیاتی خسارہ: صرف یہی نہیں بلکہ لبرلائزیشن کے بعد ہمارا مالیاتی خسارہ مسلسل بڑھ رہا ہے۔ ہم مسلسل قرضوں کے جال میں پھنس رہے ہیں۔ ہماری قومی شرح نمو بھی غیر مستحکم رہی ہے جس کا اثر روز بروز گرتے ہوئے معیار زندگی کی صورت میں نظر آرہا ہے۔ اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امریکی مفکر نوم کیمسکی نے بھی اسے عوام کی قیمت پر منافع سے تعبیر کیا ہے۔
سیاسی اثرات: ملکی معیشت غیر ملکی ہو گئی ہے اور سیاست کا رخ معاشرے کے نچلے طبقے کی طرف ہوتا نظر آ رہا ہے، جس کی وجہ سے آج کئی جگہوں پر تناؤ کی صورتحال نظر آتی ہے، جس کا لاوا کبھی کبھار پھوٹتا بھی نظر آتا ہے۔ سیاست میں علاقائیت کا اثر بڑھ گیا ہے اور سیاستدانوں کا واحد مقصد اقتدار تک پہنچنا ہے جس کی وجہ سے عوام کے تئیں ان کا احتساب کم ہوتا جا رہا ہے۔ معاشیات اور سیاست میں متضاد رجحانات جنم لے رہے ہیں جو ایک عجیب نئے بحران کو جنم دے رہے ہیں۔

ذات پرستی، فرقہ پرستی، بدعنوانی: لبرلائزیشن کے دور میں شہری کاری کی توسیع اور صارفیت کے رجحان کی وجہ سے جاگیرداری، فرقہ وارانہ ذہنیت، بدعنوانی، دہشت اور تشدد جیسی برائیاں بڑھ رہی ہیں اور مادیت میں کمی آرہی ہے۔ جو بالآخر نہ صرف قوم بلکہ انسانیت کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہوگا۔ لہٰذا مندرجہ بالا تمام تجزیوں سے واضح ہوتا ہے کہ اگرچہ لبرلائزیشن کو صحت مند صنعت کاری، مسابقتی ماحول اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے مقصد سے اپنایا گیا تھا، جس میں کچھ حد تک کامیابی بھی ہوئی ہے، لیکن اس کی برائیاں واضح اور واضح طور پر نظر آنا شروع ہو گئی ہیں۔ . یعنی لبرلائزیشن نے ہمیں اس سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے جتنا اس نے ہمیں اب تک فائدہ نہیں پہنچایا جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔


جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے