طبقاتی جدوجہد کا نظریہ
Theory of Class – Struggle
(طبقے کا نظریہ – جدوجہد)
مارکس نے سماجی تبدیلی کے لیے طبقاتی جدوجہد کے عمل کو سب سے اہم مقام دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مارکس کی فکر کی ہر سطح پر طبقاتی جدوجہد کا وجود کسی نہ کسی شکل میں ضرور نظر آتا ہے۔ مریخ
کہا جاتا ہے کہ آج تک دنیا میں جتنی بھی تبدیلیاں آئی ہیں ان کے لیے طبقاتی اور انجمن ذمہ دار رہی ہے۔ یہ درست ہے کہ مارکس نے طبقاتی جدوجہد کی نوعیت اور اس کے عمل کو سمجھانے کے لیے کوئی الگ کتاب نہیں لکھی، لیکن مارکس نے جن کتابوں میں طبقاتی جدوجہد کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا، ان میں ‘کمیونسٹ مینی فیسٹو’، ‘سرمایہ’، ‘تنقید’ جیسی کتابیں ہیں۔ پولیٹیکل اکانومی اور ‘فرانس میں طبقاتی جدوجہد’ نمایاں ہیں۔ ان میں مارکس نے ان حالات پر بھی تفصیل سے بحث کی ہے جو طبقاتی جدوجہد کے عمل کو حوصلہ دیتے ہیں۔ Bendix and Lipset (R. Bendix and S. M. Lipset) نے اپنی کتاب ‘Class, Status and Power’ (Class, Status and Power) میں ان اہم عناصر پر سادہ انداز میں بحث کی ہے جنہیں مارکس نے طبقاتی جدوجہد کے لیے ضروری سمجھا اور اسے عناصر کے طور پر قبول کیا۔ یہ عوامل ان حالات کی وضاحت کرتے ہیں جو سرمایہ دارانہ معاشروں میں طبقاتی جدوجہد کے ذمہ دار ہیں۔ طبقاتی جدوجہد کے عمل کو سمجھنے سے پہلے ان حالات کو مختصراً سمجھنا ضروری ہے:
1) تقسیم پر تصادم – Bendix اور Lipset کا کہنا ہے کہ سماج میں طبقاتی تشکیل کے جن عناصر پر مارکس نے بحث کی ہے، ان میں پہلا عنصر یہ ہے کہ سماج میں طبقات کی تشکیل پیداوار کی تقسیم میں ہوتی ہے۔ . معاشرے میں جو کچھ بھی پیدا ہوتا ہے، اسے سماج کے مختلف طبقات کے لوگوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں پیداوار کی تقسیم کا ایک بڑا حصہ سرمایہ دار طبقے کو جاتا ہے، جبکہ پرولتاریہ، تعداد میں بہت زیادہ ہونے کے باوجود، پیداوار کا بہت کم حصہ حاصل کرتا ہے۔ یہی وہ عنصر ہے جو محنت کشوں کے طبقاتی شعور کو بڑھاتا ہے۔
(2) مواصلات – مارکس نے ابلاغ کو طبقاتی جدوجہد کے دوسرے بڑے عنصر کے طور پر قبول کیا ہے۔ مارکس کا کہنا ہے کہ ’’ایک ہی طبقے کے لوگوں کے درمیان ابلاغ آسانی سے ہوتا ہے جس کی وجہ سے ایک طبقے کے لوگوں میں خیالات اور پروگرام تیزی سے پھیلتے ہیں۔
(3) طبقاتی شعور کی ترقی شاید طبقاتی جدوجہد کا سب سے اہم عنصر مختلف طبقات میں طبقاتی شعور کی نشوونما ہے۔ طبقاتی شعور کی نوعیت کی وضاحت کرتے ہوئے مارکس کہتا ہے کہ جب کسی طبقے کے لوگ اپنی طاقت اور اتحاد سے واقف ہو جاتے ہیں اور ذات کے کردار کو سمجھتے ہیں تو اس احساس کو طبقاتی شعور کہا جاتا ہے۔ مختلف طبقات اور بنیادی طور پر پرولتاریہ طبقے میں طبقاتی شعور کی نشوونما جدوجہد کو جنم دیتی ہے۔
4) عدم اطمینان – ماوروں کا کہنا ہے کہ جب معاشرے کا نچلا طبقہ معاشی ڈھانچے کو کنٹرول کرنے میں کوئی کارآمد کردار ادا نہیں کر پاتا اور یہ سمجھنے لگتا ہے کہ اس معاشی ڈھانچے میں اس کا استحصال ہو رہا ہے تو اس میں عدم اطمینان بڑھنے لگتا ہے۔ یہ عدم اطمینان جتنا زیادہ بڑھتا ہے، اس طبقے کی تنظیم اتنی ہی مضبوط ہوتی جاتی ہے۔
(5) سیاسی تنظیم – ماہ کے حساب سے طبقاتی تعمیر کی آخری شرط یہ ہے کہ ایک طبقے کے تحت آنے والے لوگ مل کر ایک سیاسی تنظیم بنائیں۔ Bendix اور Lipset نے لکھا ہے کہ مارکس کے نقطہ نظر سے ایک ہی طبقے کے لوگوں کی سیاسی تنظیم ایک خاص معاشی ڈھانچے، تاریخی حالات اور طبقاتی شعور کی نشوونما کا نتیجہ ہے۔ فرانسس ابراہم اور مورگن نے لکھا ہے کہ مارکس کے مطابق پیداوار کا ایک خاص ڈھانچہ سماجی طبقات کی ترقی کے لیے کافی نہیں ہے۔ سماجی طبقات کی تشکیل کے لیے ضروری ہے کہ لوگ ایک دوسرے کے قریب ہوں، ان کے درمیان خیالات کی گردش اور طبقاتی شعور کی نشوونما کے لیے۔ مثال کے طور پر، ایک چھوٹے سے دیہی علاقے میں بہت سے لوگ ایک جیسے حالات میں رہتے ہیں لیکن ایک دوسرے سے الگ ہوتے ہیں اور انہیں مشترکہ مفادات کا کوئی شعور نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے لوگ جماعت نہیں بنا سکتے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ صرف جسمانی قربت یا اس سے ملتے جلتے حالات ہی طبقاتی تشکیل کی بنیاد نہیں ہیں۔ اس تناظر میں کارل مارکس نے لکھا ہے کہ طبقات کی تشکیل کے لیے سماجی حالات سے عدم اطمینان اور طبقاتی شعور اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ ایک ہی طبقے کے لوگوں کے درمیان جسمانی قربت اور رابطہ۔
یہ ضرور پڑھیں
یہ ضرور پڑھیں
طبقاتی عمل – جدوجہد
دنیا میں طبقاتی جدوجہد کے عمل کی وضاحت کرتے ہوئے مریخ نے کہا ہے کہ ’’دنیا کے معاشروں کی تاریخ آج تک طبقاتی جدوجہد کی تاریخ ہے۔‘‘ شوہر اور محنت کش کے درمیان جاری جدوجہد کی تاریخ ہے۔ کلاس دوسرے لفظوں میں یہ حکمران طبقے اور مظلوم طبقے کی تاریخ ہے جو آج تک بغیر کسی رکاوٹ کے ایک دوسرے کی مخالفت میں کھڑے رہے ہیں۔ O 0 ورسوانے سال – جدوجہد کے حوالے سے ان کے خیالات میں طبقات کی ابتدا
کوئی وگ نہیں دیا جتنا کہ مستقبل میں بننے والی کلاسوں کے تجزیہ پر غور کیا گیا۔ اس تناظر میں مارکس نے واضح کیا کہ کسی خاص طبقے میں مشترکہ مفادات کے لیے جدوجہد کی شرط اس میں طبقاتی شعور پیدا کرتی ہے، جو طبقاتی جدوجہد کے عمل کی بنیادی بنیاد ہے۔ جب کوئی طبقہ مشترکہ مفادات کے لیے منظم ہونے لگتا ہے تو وہ طبقہ ایک سماجی قوت بن کر ابھرتا ہے۔ مارکس نے طبقاتی جدوجہد کو ایک ایسے عمل کے طور پر بیان کیا جو بہت سے حالات کے زیر اثر آگے بڑھتا ہے۔ ان حالات کے تناظر میں ہی طبقاتی جدوجہد کے پورے عمل کو سمجھا جا سکتا ہے۔
(1) پرولتاریہ کی ترقی – مارکس کہتا ہے کہ طبقاتی جدوجہد کا پہلا واقعہ وہ ہے جس میں مزدور ایک دوسرے سے وابستہ ہو کر تنظیم کی تعمیر شروع کرتے ہیں۔ بڑی صنعتوں میں مزدوروں کی بڑی بھیڑ ضرور ہوتی ہے لیکن اس بھیڑ کے لوگ ایک دوسرے سے ناواقف ہوتے ہیں۔ شروع میں مزدور ذاتی مفادات کی وجہ سے ایک دوسرے سے الگ رہتے ہیں لیکن اجرت کے مشترکہ مسائل کی وجہ سے ان کے مفادات مشترک ہو جاتے ہیں اور اس طرح وہ منظم ہو کر صنعت کے منتظمین سے اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے لگتے ہیں۔ اس حالت میں ان کا اتحاد نظریات پر مبنی ہے۔ مارکس کے مطابق، ’’اس اتحاد یا اتحاد میں دو خصوصیات شامل ہیں۔ اول یہ کہ محنت کشوں کا باہمی مقابلہ ختم ہو جاتا ہے اور دوسرا یہ کہ ان کے درمیان سرمایہ دار کے ساتھ عمومی مقابلہ پیدا ہو جاتا ہے۔ 14 اس طرح یہ واضح ہوتا ہے کہ سرمایہ دارانہ معیشت عوام کو محنت کش طبقے کی شکل میں منتقل کرتی ہے اور ایسے حالات کو جنم دیتی ہے جس میں عام مفاد کے لیے محنت کشوں کا شعور پروان چڑھنے لگتا ہے۔سرمایہ دارانہ معاشرے کی یہ خصوصیت ہے کہ غلام۔ دور اور جاگیردارانہ دور کے معاشروں میں نہیں پایا جاتا تھا۔
(2) جائیداد کی بڑھتی ہوئی اہمیت – مارکس نے واضح کیا کہ اس معاشرے میں جائیداد کی شکل کو سمجھنا کسی بھی معاشرے کی خاصیت کو جاننے کے لیے ایک اہم بنیاد ہے۔ معاشرے میں کسی بھی فرد یا طبقے کے رویے کو اس بنیاد پر بھی آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے کہ جائیداد کے بارے میں اس شخص یا طبقے کا رویہ کیا ہے؟ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ طبقات کا تعین خاصی حد تک جائیداد کی نوعیت کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ مارکس کہتا ہے کہ طبقات کے تعین میں انسان کے پیداواری تعلقات کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے وجھی نے یہ بھی کہا کہ سماج میں طبقات کی تقسیم کی بنیاد کاروبار کے اوزاروں سے بنائے گئے تعلقات کی بنیاد پر طبقاتی تقسیم کی بنیاد ہے۔ مثلاً پیداوار کا آلہ یعنی جس مشین پر مزدور کام کرتا ہے، وہ مشین اس کی نہیں ہوتی۔ دوسری طرف، دوسرا شخص جو اس مشین پر کام نہیں کرتا ہے وہ اس کا مالک ہے۔ اس طرح مارکس کے نقطہ نظر سے جو طبقہ ذرائع پیداوار کا مالک ہے وہ سرمایہ دار طبقہ بن جاتا ہے اور جو طبقہ ذرائع پیداوار کا مالک نہیں وہ پرولتاریہ طبقہ بن جاتا ہے۔ کے تحت آتا ہے اس طرح طبقاتی جدوجہد کے عمل میں جائیداد کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے مریخ نے معاشرے کو طبقات میں تقسیم کرنے کی اصل بنیاد بتائی۔ پیداوار کے ذرائع کی ملکیت۔
معاشی طاقت سے سیاسی طاقت کا ظہور، ذرائع پیداوار کی ملکیت اور تقسیم کے نظام کا چند افراد کے ہاتھوں میں مرکزیت سرمایہ داری کی اہم خصوصیات ہیں۔ ذرائع پیداوار کی ملکیت کی وجہ سے اعلیٰ طبقے (سرمایہ دار طبقے) کی سیاسی طاقت بڑھنے لگتی ہے اور اسے عام لوگ استعمال کر سکتے ہیں۔ کے استحصال کے لیے کرنا شروع کر دیتا ہے۔ مارکس کہتا ہے کہ جن لوگوں کا اثر ہے | شاہی املاک پر اجارہ داری ہے، وہ سیاسی نظام کو کنٹرول کرنے لگتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں ان کے سیاسی مفادات اور اقدار کا تحفظ ہو جاتا ہے۔ مارکس کے الفاظ میں، ’’سیاسی طاقت بڑی حد تک ایک طبقے کی طرف سے دوسروں کے استحصال کے لیے منظم طاقت ہے۔ سرمایہ دار طبقہ بھی ریاست کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتا ہے۔اس طرح بورژوا طبقہ سرمایہ دارانہ معاشرے میں اپنی سیاسی اور آمرانہ شناخت قائم کرتا ہے۔دوسرے لفظوں میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ بورژوا طبقے کی معاشی طاقت بتدریج مارکس نے بہت زیادہ بیان کی۔ واضح طور پر کہ جب معاشی طاقت سیاسی طاقت کی جگہ لے لے گی تو تمام سیاسی عمل اور ادارے بشمول عدالتیں، پولیس، فوج اور انتظامی اشرافیہ سرمایہ داروں کے کنٹرول میں آجائے گی۔اس طرح طبقاتی کشمکش کی اس سطح کو واضح کرتے ہوئے، مریخ کہتے ہیں کہ سیاسی طاقت یا غلبہ یا عروج صرف معاشی طاقت میں پیدا ہوتا ہے۔
یہ بھی ضرور پڑھیں
یہ بھی ضرور پڑھیں
(4) طبقات کی پولرائزیشن – مارکس نے طبقاتی جدوجہد کے عمل میں پولرائزیشن کی شرط کو خاص اہمیت دی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پورے معاشرے میں دو قطبوں کی شکل میں طبقاتی تقسیم کا قیام طبقاتی جدوجہد کے ابتدائی مرحلے کی وضاحت کرتا ہے۔ مارکس کہتا ہے کہ جب معاشرے میں سرمایہ داری کی نشوونما شروع ہوتی ہے تو بڑے صنعت کار چھوٹے صنعت کاروں (پیٹی بورژوزی) اور بے شکل RaREDMINanhen Proletariat کو زیادہ سرمایہ اکٹھا کرنے کے لیے جائیداد سے محروم کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ پاستا میں یہ عمل بہت واضح طور پر نہیں ہوتا ہے۔
کیونکہ تجارتی مسابقت اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے معاشرے کے وہ لوگ جو نہ تو مکمل طور پر پرولتاریہ طبقے کے نیچے آتے ہیں اور نہ ہی بڑے صنعت کار بتدریج اپنی جائیداد سے محروم ہو جاتے ہیں۔ مارکس کہتا ہے کہ طبقاتی شعور اور بڑھتی ہوئی طبقاتی جدوجہد کے مرحلے پر یہ چھوٹے سرمایہ دار اپنی جائیداد سے مکمل طور پر محروم ہو جاتے ہیں اور وہ پرولتاریہ کا حصہ بن جاتے ہیں۔ ریمنڈ آرون نے اس صورتحال کو پرولتارائیزیشن کے نام سے حل کیا ہے۔ پرولتاریہ کے اس عمل کے نتیجے میں ایک طرف سماج میں پرولتاریہ کے ارکان کی تعداد بڑھنے لگتی ہے اور دوسری طرف بہت کم ہاتھوں میں سرمائے کا ارتکاز بڑھتا چلا جاتا ہے۔
طبقاتی پولرائزیشن میں اضافے کے ساتھ، بورژوازی اور پرولتاریہ کے درمیان جدوجہد کی رفتار تیز ہونے لگتی ہے۔ یہ دونوں طبقے اپنی سیاسی بالادستی قائم کرنے کے لیے لڑنے لگتے ہیں۔ یہ کشمکش اس سطح پر فیصلہ کن شکل اختیار کر لیتی ہے جس میں معاشرے کا ہر فرد کسی نہ کسی طبقے کے ساتھ رہ کر جدوجہد میں حصہ لینا شروع کر دیتا ہے۔
(5) ناقص کاری میں اضافہ – مارکس کا نظریہ ہے کہ سرمایہ دار طبقے کی طرف سے محنت کشوں کے معاشی استحصال کی وجہ سے ان کی معاشی حالت بدستور خراب ہوتی جارہی ہے۔ دوسری طرف سرمایہ دار طبقہ محنت کشوں سے زائد مزدوری لے کر اپنی اضافی قدر میں اضافہ کرتا رہتا ہے۔ جیسے جیسے معاشرے میں سرمایہ داروں کے پاس دولت کا ارتکاز بڑھتا ہے اسی طرح غربت بھی بڑھنے لگتی ہے۔ اس کے علاوہ چھوٹے سرمایہ داروں کے بڑے سرمایہ داروں کا مقابلہ نہ کر سکنے کی وجہ سے وہ بھی غریب ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ اس سے معاشرے میں غربت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ اس حوالے سے مارکس نے لکھا ہے کہ ’’کوئی بھی پیداوار کا طریقہ جس میں انسان کے ہاتھوں انسان کا استحصال شامل ہو، اس میں سماجی پیداوار کو اس طرح تقسیم کیا جاتا ہے کہ سماج کی بہبود یعنی مزدوروں کی زندگی مارکس کہتی ہے۔ کہ شاید کچھ حالات ایسے ہوں جن میں محنت کشوں کو کچھ سہولیات میسر ہوں لیکن عموماً سرمایہ دارانہ نظام مزدوروں کو ان کی ضروری ضروریات سے محروم کر دیتا ہے اور اس طرح پورا معاشرہ دو حصوں میں تقسیم ہو جاتا ہے امیر اور غریب۔ مارکس کے مطابق معاشرے کی غربت استحصال کا نتیجہ ہے۔ سرمایہ دارانہ معاشرے میں غربت اس لیے نہیں پائی جاتی کہ وہاں چیزوں کی کمی ہوتی ہے، لیکن ایسے معاشرے میں غریب لوگوں کو چیزیں نہیں مل پاتی ہیں کیونکہ سرمایہ دار خود ہی زیادہ تر چیزوں کو اپنی عیش و عشرت کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ کروڑوں لوگوں کو سونے کی جگہ نہیں ملتی کیونکہ امیر لوگ بہت بڑی زمینوں پر اپنے لیے بڑی بڑی عمارتیں بناتے ہیں۔ یہ بھی استحصال کی ایک خاص شکل ہے جو غربت کا ذمہ دار ہے۔
(6) ایلینیشن – معاشی استحصال اور کام کے غیر انسانی حالات کی وجہ سے مزدوروں اور عام لوگوں میں پیدا ہونے والی ذہنی کیفیت کو مارکس نے ‘ایلینیشن’ کا نام دیا ہے۔ بیگانگی کی حالت کی وضاحت کرتے ہوئے مارکس نے بتایا کہ زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرنے کے لیے ایک طرف سرمایہ دار مزدور کو اس کے کام کے لیے بہت کم اجرت دیتا ہے اور دوسری طرف ان مشینوں کی دیکھ بھال پر جن پر مزدور محنت کرتا ہے۔ سرمایہ دار زیادہ توجہ نہیں دیتے۔ انگلستان کے صنعتی انقلاب پر گفتگو کرتے ہوئے مارکس نے ایسی کئی صنعتوں کا ذکر کیا جن میں مشینوں کی حالت بہت خراب تھی۔ اس طرح مارکس نے محنت کشوں میں بڑھتی ہوئی بیگانگی کا ذمہ دار ان تمام حالاتِ کار کو ٹھہرایا ہے جو محنت کشوں میں جسمانی اور ذہنی تھکاوٹ پیدا کرتے ہیں۔ صنعتی سماجیات کے مطالعے سے یہ بات بھی واضح ہو گئی ہے کہ جب مشینیں ٹوٹ جاتی ہیں یا مزدوروں کے کام کے حالات عدم تحفظ سے بھرے ہوتے ہیں تو مزدوروں میں اپنے کام کے تئیں ایک قسم کی بیگانگی اور مایوسی پیدا ہونے لگتی ہے۔ بیگانگی کے عمل کی وضاحت کرتے ہوئے مارکس کا کہنا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں تمام طریقے اس طرح استعمال کیے جاتے ہیں کہ انفرادی محنت کے ذریعے سماجی پیداوار میں اضافہ کیا جا سکے۔ اس عمل میں تمام ذرائع پیداوار کا کام سرمایہ داروں کے تسلط کو بڑھانا ہے۔ پیداوار کے اس عمل میں مزدور خود ایک مشین بن جاتا ہے۔ نتیجتاً ان کی مشینی زندگی میں مزدوروں کا اپنے کام سے لگاؤ کم ہونے لگتا ہے۔ جب اس کے حالات میں کوئی بہتری نہیں آتی تو آہستہ آہستہ وہ خود کو نظام پیداوار میں بے بس اور نااہل سمجھنے لگتا ہے۔ اس کے اندر یہ یقین غالب ہونے لگتا ہے کہ وہ اپنے حالات نہیں بدل سکتا۔ مارکس نے اس عمل کو ‘ایلینیشن’ کے نام سے مخاطب کیا ہے۔
(7) طبقاتی یکجہتی اور دشمنی: مارکس کہتا ہے کہ صنعتی ترقی کے اگلے مرحلے میں نہ صرف پرولتاریہ کے ارکان کی تعداد بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے بلکہ یہ طبقہ ایک بہت بڑے اجتماع میں تبدیل ہونے لگتا ہے۔ جب اس طبقے کے ارکان کی تعداد بڑھ جاتی ہے تو یہ خود کو بہت طاقتور محسوس کرنے لگتا ہے۔ اس سطح پر مزدور اپنے طبقے کے دوسرے لوگوں سے قریبی تعلقات قائم کرنا شروع کر دیتے ہیں اور اسی طرح کے حالات میں کام کرنے کی وجہ سے پرولتاریہ طبقے کے تمام لوگوں کے مفادات برابر ہو جاتے ہیں۔ یہ کیفیت پرولتاریہ میں ایک نیا شعور پیدا کرتی ہے اور اس طرح پرولتاریہ میں اتحاد قائم ہونا شروع ہو جاتا ہے۔
, دوسری طرف بورژوا طبقے میں مسابقت بڑھنے کی وجہ سے بڑے صنعت کار چھوٹے صنعت کاروں کو تباہ کرنے کی کوشش کرنے لگتے ہیں۔ نتیجتاً سرمایہ دارانہ معاشرے میں کاروباری بحران کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ بحران کی اس حالت میں مزدوروں کی اجرت کبھی کم ہوتی ہے اور کبھی بڑھ جاتی ہے۔ مارکس کے مطابق، یہ وہ حالت ہے جب مزدور منظم ہو جاتے ہیں اور مناسب اجرت کا مطالبہ کرنے کے لیے سرمایہ داروں کی مخالفت شروع کر دیتے ہیں۔ یہ انقلاب کا ابتدائی مرحلہ ہے جس میں مزدور آنے والے انقلاب کے لیے خود کو تیار کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
(8) انقلاب – مارکس کا کہنا ہے کہ انقلاب طبقاتی جدوجہد کی حتمی حالت ہے۔ یہ اس حالت کی وضاحت کرتا ہے جس میں مزدور منظم ہو جاتے ہیں اور سرمایہ داروں کے خلاف پرتشدد جدوجہد شروع کر دیتے ہیں اور معاشرے کے پورے معاشی ڈھانچے کو بدل دیتے ہیں۔ انقلاب معاشی بحران کی اس حالت میں جنم لیتا ہے جس میں سرمایہ دارانہ نظام کے نقائص اپنی انتہا پر ظاہر ہو جاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب سرمایہ دار زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کے لیے استحصال کو غیر انسانی سطح تک لے جاتے ہیں اور ہر غیر منصفانہ طریقے سے دولت جمع کرنا شروع کر دیتے ہیں تو پرولتاریہ کے انقلاب کے لیے یہ ضروری ہو جاتا ہے۔ مریخ نے انقلاب کی حالت کی گہری وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے۔ جب انقلاب اپنے فیصلہ کن مرحلے پر ہوتا ہے تو حکومت میں بھی ٹوٹ پھوٹ کے حالات پیدا ہونے لگتے ہیں۔ اس وقت حکمران طبقے کا ایک چھوٹا سا حصہ بھی حکمران طبقے سے الگ ہو کر مارواڑہ طبقے میں شامل ہو جاتا ہے جو انقلاب برپا کر رہا ہے۔ مارکس کہتا ہے کہ پورے معاشرے کا مستقبل انقلابی طبقے کے ہاتھ میں ہے۔ یہ طبقہ سرمایہ دارانہ سماجی ڈھانچے کو تباہ کر کے ایک نئے نظریے کی بنیاد پر ایک نیا سماجی ڈھانچہ تشکیل دیتا ہے۔
(9) پرولتاریہ کی آمریت – مارکس کے مطابق پرولتاریہ کی آمریت طبقاتی جدوجہد کا آخری مرحلہ ہے۔ وہ کہتا ہے کہ جب انقلاب پرولتاریہ برپا کرتا ہے تو سرمایہ دارانہ نظام کو تباہ کر کے سماج کی ساری طاقت پرولتاریہ کو حاصل ہوتی ہے۔ یہ درست ہے کہ انقلاب میں کچھ تشدد ہوتا ہے لیکن انقلاب میں یہ ضروری نہیں کہ تمام سرمایہ داروں کو ختم کر دیا جائے۔ انقلاب کا بنیادی مقصد پرولتاریہ کے ذریعہ معاشرے کی تمام جائیداد، ذرائع پیداوار اور طاقت پر قبضہ کرنا ہے۔ جب ذرائع پیداوار اور طاقت پر محنت کشوں کا حق ہوگا تو پھر کسی کے استحصال کا سوال ہی پیدا نہیں ہوگا۔ مارکس نے یہ بھی واضح کر دیا کہ اس انقلاب سے عام لوگوں کو ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے، یہ صرف ان سرمایہ داروں کا خاتمہ کرے گا جو محنت کشوں کا استحصال کر رہے ہیں۔ مارکس نے اپنے ‘کمیونسٹ مینی فیسٹو’ کے آخر میں لکھا، "کمیونسٹ انقلاب کے خوف سے حکمرانوں (سرمایہ داروں) کو کانپنے دو”۔ پرولتاریہ کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں ہے سوائے اس کی زنجیروں کے، جب کہ اس کے پاس جیتنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ پوری دنیا جھوٹ بولنا اس طرح مارکس نے انقلاب کے نتیجے میں پرولتاریہ کی آمریت کو طبقاتی جدوجہد کی آخری انتہا کے طور پر واضح کیا۔
تنقیدی تشخیص –
کارل مارکس کے پیش کردہ طبقاتی جدوجہد کے نظریے کو سماجی فکر میں ایک اہم مقام حاصل ہے، لیکن سماجیات کے بہت سے اسکالرز نے اس نظریے کے بہت سے پہلوؤں کی عملییت کو قبول نہیں کیا۔ اگر مارکس کے پیش کردہ طبقاتی جدوجہد کے نظریے کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اس نظریہ کے کئی پہلو ہیں۔ اس کا پہلا پہلو معاشی عوامل سے متعلق ہے جبکہ دوسرا پہلو جدلیاتی عمل سے متعلق ہے۔ تیسرا پہلو، جو سب سے اہم ہے، انقلاب کی صورت میں تشدد کی ناگزیریت کی وضاحت کرتا ہے۔ ان پہلوؤں کے حوالے سے مختلف علماء نے طبقاتی جدوجہد کے اس نظریے پر تنقید کی ہے۔ مارکس کے اس نظریے کا حقیقت پسندانہ جائزہ صرف چند بڑی تنقیدوں کے تناظر میں ہی لگایا جا سکتا ہے۔ طبقاتی جدوجہد کے معاشی پہلو کے حوالے سے جو تنقیدیں پیش کی گئی ہیں ان میں C. Wright Mills اور Popper کی تنقیدیں نمایاں ہیں۔ ملز (C. W. Mills) کا کہنا ہے کہ مارکس نے اپنے نظریہ میں سرمایہ دارانہ نظام سے پیدا ہونے والے معاشی حالات کے طور پر پولرائزیشن، غریبی اور بیگانگی کو خاص اہمیت دی ہے۔ درحقیقت یہ ایسے حالات ہیں جن کا پیدا ہونا سرمایہ دارانہ معیشت میں ضروری نہیں ہے۔ اس کے برعکس اگر امریکہ کی سرمایہ داری کی مثال لی جائے تو واضح ہوتا ہے کہ ایک طرف مزدوروں میں صنعت سے انضمام اور لگاؤ بڑھ گیا ہے۔ ساتھ ہی ان کی معاشی حالت بھی بہتر ہوئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں مزدوروں کی معاشی حالت کو بہتر بنانے کے لیے انہیں ان کے منافع کے حصے کے طور پر نہ صرف بونس دیا جاتا ہے بلکہ آہستہ آہستہ انہیں فیکٹری کے انتظام میں شراکت دار بھی بنایا جا رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں نہ تو سماج میں طبقات کا پولرائزیشن ہوتا ہے اور نہ ہی محنت کشوں میں اپنے کام سے بیگانگی کا احساس ہوتا ہے۔
پوپر کا کہنا ہے کہ مارکس کا نظریہ حد سے زیادہ سادگی کا قصوروار ہے۔ آپ کے الفاظ میں، "اگر ہم یہ مان بھی لیں کہ معاشرے میں امیر اور غریب کا فرق تمام واقعات کی وجہ ہے، تب بھی حکمران طبقے اور حکمران طبقے کے درمیان تعلق کو صرف طبقاتی جدوجہد کے نظریے سے سمجھنا مسئلہ کو بہت آسان بنا دیتا ہے۔ دینا ہے .
مارکس نے سماجی اور معاشی طبقات میں کوئی فرق نہ کرتے ہوئے اپنی وضاحت میں سماجی حالات کے اثرات کو یکسر فراموش کر دیا۔حقیقت یہ ہے کہ معاشی حالات ہی سماجی حالات کو متاثر کرنے کی واحد بنیاد نہیں ہیں۔امریکی دانشور روسٹو (Rostow) کا کہنا ہے کہ سماجی حالات کے مراحل ترقی کو اس جدلیاتی عمل کی بنیاد پر نہیں سمجھا جا سکتا جس کی بحث مارکس نے طبقاتی جدوجہد کے نظریے میں کی ہے۔آپ کا خیال ہے کہ مختلف معاشروں کی ترقی ایک سیدھی لکیر میں ہوئی ہے۔ کھپت کے اعلیٰ مرحلے تک۔سماجی ترقی کے اس عمل میں تعاون کی شرط اقتصادی عوامل کے درمیان تصادم سے زیادہ اہم رہی ہے۔تاریخی واقعات سے یہ تصادم درست ثابت نہیں ہوتا۔اس سلسلے میں C. Hunt (Carew) ہنٹ) کا کہنا ہے کہ "زیادہ تر تنازعات کی وجہ کسی بھی صورتحال کے بارے میں فرد اور معاشرے کے دعووں اور خواہشات میں فرق ہے۔” معاشرے میں بہت سے تنازعات ہمیشہ دلیل، جوابی دلیل اور ربط کے ذریعے حل کیے جاتے ہیں، لیکن تنازعات کو طبقاتی بنیادوں پر بیان کرنے سے تنازعات ایسی صورت اختیار کر جاتے ہیں جو کبھی حل نہیں ہو سکتے۔ ہندوستان کے سوشلسٹ مفکر ڈاکٹر راممنوہر لوہیا نے اپنی کتاب ‘مارکس، گاندھی اور سوشلزم’ میں اس نظریے پر تنقید کرتے ہوئے بتایا ہے کہ مارکس کا طبقاتی جدوجہد کا نظریہ ایک آدھ لفظ کی طرح ہے، یہ انقلاب کو قبول کرتا ہے لیکن سماجی اور ثقافتی عوامل کے اثر کو مکمل طور پر نظر انداز کرتا ہے۔ .
اس تناظر میں بن سبین کا یہ بیان مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اگر مارکس کے طبقاتی جدوجہد کے نظریہ کو مان لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ صنعتی نظام میں مزدوروں کی فلاح و بہبود کے لیے جتنی بھی کوششیں کی جائیں لیکن مزدور ضرور کریں گے۔ سرمایہ دارانہ نظام کو قبول نہ کرکے انقلاب۔ یہ موقف نہ تو عملی ہے اور نہ ہی مختلف ممالک کی سرمایہ دارانہ صنعت کاری اس کی تصدیق کرتی ہے۔ منطقی بنیادوں پر درج بالا تنقیدیں کافی مضبوط معلوم ہوتی ہیں لیکن انگلستان کے صنعتی انقلاب سے پیدا ہونے والے حالات کے تناظر میں مارکس نے طبقاتی جدوجہد کا نظریہ پیش کیا، اس میں نظریاتی سے زیادہ عملیت پسندی کا معیار ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر مارکس نے انقلاب کو طبقاتی جدوجہد کا حتمی نتیجہ قرار نہ دیا ہوتا تو آج بھی سرمایہ دارانہ ممالک میں محنت کشوں کا استحصال اسی طرح ہو رہا ہوتا جس طرح انیسویں صدی میں ہوا تھا۔ مارکس کے اس اصول نے محنت کشوں کو دنیا کے تمام ممالک میں منظم ہونے کی ترغیب دی اور اس کے نتیجے میں سرمایہ دارانہ معاشروں میں صنعتوں کے مالکان کی طرف سے مزدوروں کے کام کے حالات اور اجرت کو بہتر بنایا گیا۔ جو لوگ مارکس کے نظریہ کو اس بنیاد پر تنقید کا نشانہ بناتے ہیں کہ پرولتاریہ کی آمریت میں انفرادی آزادی کی کوئی جگہ نہیں ہے، انہوں نے مارکس کے بیان کو پوری طرح سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔
مارکس نے خود لکھا ہے کہ ’’میں اپنے آپ کو ان کمیونسٹوں سے مختلف سمجھتا ہوں جو انفرادی آزادی کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور جو پورے معاشرے کو ڈیڈ لائن یا لوگوں کا ایک بہت بڑا ذخیرہ بنانا چاہتے ہیں۔‘‘ مارکس کے نظریے کی عملییت اس سے واضح ہوتی ہے کہ سوشلسٹ جس نے مارکس سے پہلے محنت کشوں کو ایک مظلوم اور بے بس طبقے کے طور پر واضح کیا تھا، مارس نے محنت کش طبقے کو ایک ایسی قوت کے طور پر پیش کیا جو معاشرے میں انقلابی تبدیلیاں لا سکتی ہے۔ مارکس کی یہ شراکت یقیناً اہم ہے۔