سیاسی بے حسی POLITICAL NEUTRALITY


Spread the love

سیاسی بے حسی

POLITICAL NEUTRALITY

سیاسی بے حسی سے مراد کسی شخص کی سیاست سے لاتعلقی اور سیاسی شرکت میں کمی ہے۔ سیاسی بے حسی دراصل ایک بہت وسیع تصور ہے۔

یہ ‘سیاسی بیگانگی’ کا حصہ ہے۔ سیاسی بے حسی کو سمجھنے کے لیے سیاسی بیگانگی کو سمجھنا ضروری ہے۔ اگرچہ اجنبیت ایک قدیم تصور ہے، لیکن سرمایہ دارانہ معاشروں کے مطالعہ کے نتیجے میں اس نے سماجی علوم میں ایک اہم مقام حاصل کر لیا ہے۔ فرانسیسی زبان میں ‘ایلین’؛ سپادمدھا اور ہسپانوی زبان میں ‘النڈو’؛ سپادمدھا ایسے الفاظ ہیں جو کسی شخص کی ذہنی کیفیت کو ظاہر کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں جس میں وہ اپنے آپ کو غیر ملکی سمجھنے لگتا ہے اور اس سے بیگانہ ہونے لگتا ہے۔ خود کو اور دوسرے افراد کی طرف علیحدگی کا تجربہ کرنا شروع کر دیتا ہے۔ موجودہ دور میں یہ لفظ بے چین مزاج یا غیر متوازن کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

یہ ان مزاجوں اور رجحانات کے لیے کیا جاتا ہے جو انسان کو معاشرے، ماحول اور اپنے آپ سے لاتعلق بنا دیتے ہیں۔

سیاسی بیگانگی میں سیاست یا طاقت سے بیزاری اور سیاسی شرکت سے گراوٹ اور لاتعلقی شامل ہے۔ اس میں وہ شخص اپنے آپ کو ذمہ دار اور قومی مقاصد سے متعلق نہیں سمجھتا۔ دور حاضر کے علماء سیاسی تنہائی کو جدید صنعتی معاشروں کی خصوصیت سمجھتے ہیں۔ماہرینِ سماجیات کے مطابق شہری صنعتی نوکر شاہی معاشروں میں طاقت کا اتنا فاصلہ کبھی نہیں تھا جتنا آج ہے۔ ہمیں قدیم حالات میں بھی سیاسی بے حسی نظر آتی ہے۔ مثال کے طور پر، قدیم یونانی اور رومی طرز عمل میں لوگوں کو اپنے لیڈروں کے لیے مکمل تابع کرنا اس رجحان کی ایک مثال ہے۔

مختصراً، سیاسی بے حسی ایک شخص کی سیاست سے نفرت، بے اختیاری اور سیاسی قیادت پر اعتماد کا کھو جانا ہے۔ اس میں نہ صرف سیاست سے لاتعلقی اور لاتعلقی شامل ہے بلکہ یہ احساس فیصلہ سازی کے عمل سے متعلق افراد اور اداروں کے تئیں نفرت پیدا کرتا ہے۔

بنیادی وجہ

سیاسی مفکرین نے سیاسی بے حسی کی مندرجہ ذیل بنیادی وجوہات بیان کی ہیں۔

 غیر معقول جذبات (جذبہ)،

سیاسی علم کی کمی،

سیاسی اثر و رسوخ کا فقدان، منقسم شعور،

سیاسی رابطے کا فقدان،

 شہری کاری اور صنعت کاری، سیاسی عدم استحکام

مطلق بادشاہت

مطلق العنانیت

طاقت کی مرکزیت،

جذباتی تھکن،

ذاتی آزادی سے محرومی کا ممکنہ خطرہ،

 خلاصہ سیاست؛ اور

قائدین اور اراکین کے درمیان دوستانہ تعلقات کا فقدان

سیاسی بے حسی کی ان وجوہات میں سے کچھ ہندوستانی تناظر میں بھی لاگو ہوتی ہیں۔سیاسی علم کی کمی، منقسم شعور، سیاسی رابطے کی کمی، شہری کاری اور صنعت کاری، سیاسی عدم استحکام، اقتدار کی مرکزیت، انفرادی آزادی کے فقدان کا خطرہ اور دوستانہ تعلقات کی کمی۔ قائدین اور عوام کے درمیان تعلقات اہم ہیں۔

21ویں صدی کی پہلی دو دہائیوں میں ہندوستانی سیاست میں سیاسی بے حسی کی سب سے بڑی وجہ سیاستدانوں کے تئیں عوام کا بڑھتا ہوا عدم اعتماد ہے۔ لیڈروں کی اخلاقی گراوٹ کی وجہ سے قیادت اور عوام کے درمیان دوستانہ تعلقات ختم ہو رہے ہیں۔ ایک بڑھتا ہوا عوامی عقیدہ ہے کہ تمام سیاست دان اخلاقی طور پر کمزور ہیں، چاہے وہ کسی بھی سیاسی جماعت کی نمائندگی کرتے ہوں۔ ان کا اصل مقصد طاقت اور اختیارات کا غلط استعمال ہے اور وہ مل کر عوام کے پیسے کو لوٹ رہے ہیں۔

عوام کو یقین ہو رہا ہے کہ ووٹنگ میں حصہ لینے اور حکومت کی تبدیلی سے کچھ نہیں ہوگا۔ سیاسی قیادت پر کرپشن، اقربا پروری کے الزامات لگائے جا رہے ہیں۔ سیاستدانوں کے منقولہ اور غیر منقولہ اثاثے ان کے معلوم ذرائع سے کہیں زیادہ ہونے کی اطلاعات منظر عام پر آ رہی ہیں۔ کئی سیاستدان کرپشن کے الزام میں جیل جا چکے ہیں۔

بھارت میں سیاسی اشرافیہ کے لیے بھرتی کا عمل انتہائی مشکل اور پیچیدہ ہے۔ جس کی وجہ سے عام آدمی سیاسی اشرافیہ تک نہیں پہنچ سکا۔ پیسہ، طاقت، مجرمانہ کردار، اقربا پروری، بیوروکریٹس دیر سے سیاسی بھرتیوں کی بنیاد بن چکے ہیں۔ اس لیے عوام میں سیاست سے مایوسی کا احساس ہے۔

ہندوستان میں ابھرتا ہوا متوسط ​​طبقہ بھی سیاسی بے حسی کے لیے مددگار ثابت ہوا ہے۔ پون ورما کے مطابق ہندوستانی متوسط ​​طبقہ خود غرض اور مفاد پرست ہے۔ وہ سیاسی حالات سے قطع نظر اپنا کام کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ مڈل کلاس کی سوچ سیاسی بے حسی کی ہے۔ وہ ووٹنگ میں حصہ لینے سے زیادہ کرکٹ میچ دیکھنا پسند کرتے ہیں۔

ہندوستان میں سیاسی بے حسی کے کچھ اہم نتائج سامنے آئے ہیں۔ سیاسی بے حسی کا سب سے اہم نتیجہ حالیہ دنوں میں جوڈیشل ایکٹوازم کی صورت میں سامنے آرہا ہے۔ چونکہ عوام کا مقننہ اور ایگزیکٹو پر سے اعتماد اٹھتا جا رہا ہے اس لیے عام کاموں میں بھی عدلیہ کی مداخلت بڑھ رہی ہے۔ عوام امید بھری نظروں سے عدلیہ کی طرف دیکھ رہے ہیں۔

سیاست دانوں پر بڑھتے ہوئے عدم اعتماد کی وجہ سے کئی چھوٹی بڑی عوامی تحریکیں پھوٹ رہی ہیں۔ یہ عوامی تحریک صرف ترقیاتی کاموں میں شامل نہیں ہے۔

وہ رکاوٹیں پیدا کر رہے ہیں لیکن قانون سازی کے عمل کو بھی متاثر کر رہے ہیں۔

ہندوستان میں زمین کے حصول کے کئی تنازعات اور عوامی تحریکیں چل رہی ہیں۔ سنگرو، کڈنکلم، نوئیڈا تنازعہ اور انا تحریک اس کی کچھ نمایاں مثالیں ہیں۔

اطلاعاتی انقلاب کے اس دور میں میڈیا نے لیڈروں کی اخلاقی گراوٹ کا فائدہ اٹھایا ہے۔ چوبیس گھنٹے چینلز، اسٹنگ آپریشنز سیاستدانوں کو بلیک میل کرتے ہیں۔ عوام بغیر ثبوت کے میڈیا کی باتوں پر یقین کرنے کا رجحان رکھتے ہیں کیونکہ اس کا موجودہ قیادت پر اعتماد ختم ہو چکا ہے، اس طرح سیاسی عدم استحکام کو فروغ ملتا ہے۔

سیاسی جماعتیں جدید جمہوری سماجی نظام کا لازمی حصہ بن چکی ہیں۔ سیاسی جماعتیں اقتدار اور اختیار حاصل کرنے کے لیے اہم ایجنسیاں ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے ذریعے ہی اقتدار اور اختیار کے حصول کی جدوجہد کو ادارہ جاتی شکل دی جاتی ہے۔ لوگ سیاسی جماعتوں کے ذریعے اپنی خواہشات کا اظہار کرتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی سماجی تنظیم سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ سیاسی جماعت کی تشکیل میں معاشرے کے کون کون سے طبقے شامل ہیں۔

سیاسی بھرتی کا عمل اشرافیہ کے درمیان انتخاب کا تجزیہ کرتا ہے۔

ہے عوام کی شرکت حکمرانی میں عوام کی شرکت کو ظاہر کرتی ہے۔ سیاست سے عوام کی بے حسی اور سیاسی شرکت میں کمی سیاسی نظام کے لیے تشویشناک ہے اور اس کے نتیجے میں عدالتی فعالیت، عوام میں عدم اعتماد اور عوامی تحریکیں جنم لے رہی ہیں۔ یہ تمام نتائج ملک کی معاشی ترقی میں رکاوٹ اور سیاسی عدم استحکام کو فروغ دیتے ہیں۔


جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے