سوالنامے کی وشوسنییتا
VALIDITY OF QUESTIONNAIRE
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جواب دہندگان کی طرف سے دی گئی معلومات کس حد تک قابل اعتماد ہیں۔ اعتبار کا پتہ اسی وقت ہوتا ہے جب اکثر سوالات کا مفہوم الگ الگ کر دیا گیا ہو، ایسی صورت میں مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر عدم اعتبار کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔
1. جانبدار نمونہ – – – اگر نمونہ منتخب کرتے وقت احتیاط نہیں برتی گئی تو اس کے نتائج قابل بھروسہ نہیں ہو سکتے۔ اگر مخبروں کے انتخاب میں تحقیق متاثر ہوتی ہے تو یقینی طور پر موصول ہونے والی معلومات نمائندہ نہیں ہو سکتیں۔
کنٹرول شدہ اور متعصب جوابات – سوالنامے کے طریقہ کار سے حاصل کیے گئے جوابات اکثر کم درست ہوتے ہیں۔ وہ کچھ خفیہ اور ذاتی معلومات دینے سے کتراتے ہیں کیونکہ وہ اسے اپنے ہاتھ سے لکھنے سے ڈرتے ہیں، اس لیے ان کے جوابات میں تعصب کا احساس ہوتا ہے۔ ان کے جوابات یا تو سخت تنقید یا مکمل اتفاق پر پورا اتریں گے۔ متوازن جوابات دستیاب نہیں ہیں۔
3. غلط اور غیر متعلقہ سوالات – جب سوالنامے میں غلط اور غیر متعلقہ سوالات شامل کیے جاتے ہیں تو جواب دہندگان بھی اپنے نقطہ نظر سے ان کا جواب دیتے ہیں۔ ایسے میں جواب دہندگان کی طرف سے دی گئی معلومات قابل اعتماد نہیں ہو سکتیں۔
4. بھروسے کی جانچ – قابل اعتمادی اکثر سوالنامے میں دیے گئے جوابات میں پائی جاتی ہے، اس لیے ان کی جانچ کی جانی چاہیے۔ اس کے چند طریقے درج ذیل ہیں:
(i) دوبارہ سوال نامہ بھیجنا سوالناموں کو جواب دہندگان کے ساتھ دوبارہ ان کی قابل اعتمادی جانچنے کے لیے رینگ کرنا چاہیے۔ اگر ان کے جوابات پہلے کی طرح اس بار بھی ملتے ہیں تو موصول ہونے والی معلومات پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ ٹیسٹ اسی وقت مفید ثابت ہو سکتا ہے جب مدعا علیہ کی سماجی، معاشی یا ذہنی حالت میں کوئی تبدیلی نہ ہو۔
(ii) ملتے جلتے گروپوں کا مطالعہ – وشوسنییتا کو جانچنے کے لیے ایک ہی سوالنامہ دوسرے ملتے جلتے گروپوں کو بھیجا جائے، اگر ان سے موصول ہونے والے جوابات اور پچھلے گروپوں کے جوابات میں مماثلت ہے، تو دی گئی معلومات پر یہ کر سکتا ہے۔ یقین کیا جائے لیکن اگر دونوں میں بہت زیادہ فرق ہو تو یقین نہیں کیا جا سکتا۔
(iii) ذیلی نمونے کا استعمال – یہ جانچنے کا ایک اہم طریقہ بھی ہے۔ مرکزی نمونے میں سے ایک ذیلی نمونے کو منتخب کرکے، سوالنامے کی جانچ کی جا سکتی ہے۔ اگر ذیلی نمونے سے حاصل کردہ معلومات اور مرکزی نمونے سے حاصل کردہ معلومات میں کوئی خاص فرق ہے تو سوالنامہ ناقابل اعتبار سمجھا جائے گا۔ اگر دونوں میں بہت کم تفاوت ہے تو اسے قابل اعتماد سمجھا جائے گا۔
(iv) متفرق طریقے – سوال کرنے کے طریقوں میں انٹرویو، شیڈول اور براہ راست مشاہدہ شامل کیا جا سکتا ہے۔ اگر ان طریقوں سے سوالات کے جوابات تقریباً ایک جیسے ہوں تو سوالنامہ قابل اعتماد سمجھا جائے گا، ورنہ نہیں۔
سوالنامہ کی تعمیر میں احتیاطی تدابیر
(سوالنامہ کی تعمیر میں احتیاطی تدابیر)
سوالنامہ بنیادی حقائق کو حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ اس کی کامیابی کا انحصار اس کی تعمیر میں کی جانے والی احتیاطی تدابیر پر ہے۔ بصورت دیگر سوالنامے کا پورا مقصد ہی بیکار ہو جائے گا۔ اس لیے ان احتیاطوں پر غور کرنا چاہیے – – – موضوع کا مکمل تجزیہ اکثر مسئلہ کے مختلف پہلو ہوتے ہیں جن میں کچھ زیادہ اہم ہوتے ہیں اور کچھ کم۔ محقق کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ سوالنامہ متوازن ہو تاکہ سوالنامے میں تمام فریقین کی نمائندگی ہو۔ اس کے لیے وہ اپنا تجربہ، دوستوں کا تعاون، دیگر ادبی ذرائع وغیرہ استعمال کر سکتا ہے۔ تمام پہلوؤں کا صحیح تجزیہ کرنے کے بعد ہی سوالنامہ تیار کیا جانا چاہیے۔ افادیت – سوالنامے میں سوالات کو جگہ دینے سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ مطالعہ کے حوالے سے ان کی افادیت ہے یا نہیں۔ فضول سوالات کو جگہ نہ دی جائے کیونکہ اس سے نہ صرف وقت اور پیسے کا ضیاع ہوتا ہے بلکہ کامیابی بھی نہیں ہوتی۔
سوالنامے کی نوعیت: سوالنامے کی نوعیت اور دیگر پہلوؤں پر بھی غور کیا جانا چاہیے۔ اس سلسلے میں چند تجاویز درج ذیل ہیں۔
(i) سوالات کا سائز – سوالات کا سائز بڑا نہیں ہونا چاہئے کیونکہ جواب دینے والا بڑا سائز دیکھ کر گھبرا جاتا ہے۔ لہذا، چھوٹے سوالنامے زیادہ مفید ثابت ہوسکتے ہیں۔
(ii) زبان کی وضاحت – سوالناموں کی زبان اتنی سادہ اور واضح ہونی چاہیے کہ ایک عام جواب دہندہ ان کے معنی اور استعمال کو سمجھ سکے۔ زبان کو پیچیدہ یا محاورہ نہیں بنانا چاہیے۔ جہاں تک ممکن ہو کسی بھی قسم کی تکنیکی اصطلاحات، مبہم الفاظ سے گریز کریں۔
ہاں جگہ نہیں دینی چاہیے۔ سوالات جتنے آسان ہوں گے، ان کے جوابات اتنے ہی واضح ہوں گے۔
(ii) اکائیوں کی وضاحت – وہ اکائیاں جنہیں محقق استعمال کر رہا ہے ان کی واضح طور پر تعریف کی جانی چاہیے تاکہ مختلف جواب دہندگان اپنے نقطہ نظر سے ان کی تشریح نہ کریں۔
(iv) مفید سوالات – سوالات مفید ہونے چاہئیں۔ جواب دہندہ خود بے لگام سوالات سے پریشان ہوتا ہے اور محقق کا اپنا مقصد بھی پورا نہیں ہوتا۔ لہٰذا ایسے قابل سوالات پوچھے جائیں جن کا جواب دینے والا بغیر کسی جھجک کے ان کا جواب دے۔
(1) مخصوص سوالات سے اجتناب (Aroidance of Specific Questions) کچھ سوالات ذاتی زندگی، جذبات اور صوفیانہ زندگی سے متعلق ہوتے ہیں، اس لیے ایسے سوالات سے گریز کرنا چاہیے۔ کوئی طنزیہ سوال بھی نہ پوچھا جائے کیونکہ جواب دینے والے کے جذبات مجروح ہو سکتے ہیں۔ ایسے سوالات سے گریز نہ کیا گیا تو تحقیق کا مقصد ہی شکست ہو جائے گا۔
سوالنامے کی خصوصیات
(سوالناموں کی خوبیاں)
بنیادی ڈیٹا حاصل کرنے میں سوالنامہ کا طریقہ بہت اہم ہے۔ اس کے خواص کی وجہ سے حقائق کو آسانی سے جمع کیا جا سکتا ہے۔ کچھ اہم خصوصیات یہ ہیں۔
(i) وسیع مطالعہ – – اس طریقے سے بڑی آبادی کا مطالعہ کامیابی سے کیا جا سکتا ہے۔ دوسرے نظاموں کو بڑے گروہوں کا مطالعہ کرنے کے ساتھ ساتھ مخبروں کے ارد گرد سفر کرنے کے لیے زیادہ رقم، وقت اور کوشش کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس نظام کو ان تمام برائیوں سے نجات ملی ہے۔ کم اخراجات – اس نظام میں فیلڈ ورکرز کی ضرورت نہیں ہے، اس لیے اخراجات بچ جاتے ہیں۔ صرف پرنٹنگ اور ڈاک کے اخراجات شامل ہیں۔
ii) آسان – اس نظام کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ معلومات کو مختصر وقت میں حاصل کیا جاسکتا ہے۔ سوالنامے جواب دہندگان کو بھیجے جاتے ہیں اور کچھ ہی عرصے میں جواب دہندگان کو معلومات کے ساتھ واپس کر دیا جاتا ہے۔ شیڈول، انٹرویو وغیرہ کے طریقوں میں محقق کو خود ذاتی طور پر جا کر معلومات اکٹھی کرنی پڑتی ہیں۔ اس لیے اس مخمصے سے بچنے کے لیے سوالنامے کا طریقہ بہت آسان ہے۔
(iv) تکرار کا امکان – جواب دہندگان کا رویہ جاننے کے لیے مختلف اوقات میں سوالنامے بھیجے جاتے ہیں۔ یا کچھ تحقیقیں ایسی ہیں جن میں ایک خاص وقت کے بعد کئی بار معلومات حاصل کرنی پڑتی ہیں تو اس کے لیے سوالنامہ کا طریقہ بہت مفید ہے۔
() آزاد اور غیر جانبدار معلومات (مفت اور غیر جانبدار معلومات) جواب دہندگان کو اپنے جوابات دینے میں مکمل آزادی ہے۔ اس نظام میں جواب دہندہ کے سامنے محقق کو ذاتی طور پر نہیں سمجھا جاتا، اس لیے جواب دہندہ بغیر کسی ہچکچاہٹ اور ہچکچاہٹ کے آزادانہ اور غیرجانبدارانہ معلومات دینے کا عزم رکھتا ہے۔ لہذا، اس طریقہ سے حاصل کردہ شور زیادہ قابل اعتماد ہے.
پروفارما کے نقائص
(سوالنامے کے نقصانات)
یہ نظام بھی بے عیب نہیں ہے۔ اس کی اپنی کچھ حدود ہیں جو درج ذیل ہیں۔
(i) نمائندہ نمونے لینے کا کوئی امکان نہیں – چونکہ سوالنامہ صرف تعلیم یافتہ افراد سے حقائق حاصل کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے، اس لیے نمائندہ نمونے نہیں لیے جا سکتے۔
(ii) گہرے مطالعہ کے لیے غیر موزوں – سوالنامے کے ذریعے صرف موٹے حقائق جمع کیے جاتے ہیں۔ سوال کی گہرائی تک نہیں پہنچ سکتا۔ انٹرویو کے ذریعے انسان کے جذبات، رجحانات، تحریکوں اور اندرونی اقدار کا گہرائی سے مطالعہ کیا جا سکتا ہے جبکہ سوالنامے کے ذریعے صرف معاون معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔ پارٹن کے الفاظ میں، "اس میں کوئی شک نہیں کہ بہترین سوالنامے کے مقابلے بہترین انٹرویو کے ذریعے زیادہ گہرائی سے مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔”
(iii) مکمل معلومات کا کم امکان – – سوالنامے کے سلسلے میں یہ ایک تلخ تجربہ ہے کہ جواب دہندگان زیادہ دلچسپی نہیں لیتے کیونکہ اول تو ان کا محقق کے ساتھ براہ راست تعلق نہیں ہوتا اور دوسری بات یہ کہ ان کے پاس اپنی کوئی معلومات نہیں ہوتی۔ مقصد حل نہیں ہوتا۔ تو وہ اتفاق سے جواب دیتے ہیں۔ الفاظ کی مختلف تشریح کی جاتی ہے، جس کے نتیجے میں ان کے جوابات قابل اعتماد نہیں ہوتے۔
(iv) جواب کا مسئلہ – سوالناموں کے جواب نہ تو وقت پر آتے ہیں اور نہ ہی ان کے جوابات بالکل آتے ہیں۔ بار بار یاددہانی کے بعد بھی انہیں وقت پر واپس نہیں کیا جاتا، تو کئی بار محقق پریشان ہو جاتا ہے اور لکھنا چھوڑ دیتا ہے۔ ایسی صورت حال میں استحکام کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ ان نقائص کے باوجود سوالنامے کے ذریعے حقائق کو جمع کرنے میں کافی سہولت ہے۔ جہاں مطالعہ کا میدان وسیع ہے، وہاں سوالنامے کے ذریعے حقائق جمع کرنے میں زیادہ سہولت ہے۔ اس طریقے سے معلومات یا مواد غیر ضروری اثرات سے پاک ہوتا ہے۔ محقق کے بارے میں علاقائی معلومات کی وصولی میں بھی لاعلمی ایک وردان ثابت ہوتی ہے۔ اس وجہ سے حقائق کو مرتب کرنے کا زیادہ طریقہ اختیار کیا جا رہا ہے۔