سماجی کاری کے ذرائع AGENCIES OF SOCIALIZATION


Spread the love

سماجی کاری کے ذرائع
AGENCIES OF SOCIALIZATION

خاندان – خاندان سماجی کرنے کے ذرائع میں ایک اہم مقام رکھتا ہے۔ انسان پیدائش سے موت تک خاندان میں رہتا ہے۔ اس لیے یہ شخصیت کی تشکیل میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ جب انسان پیدا ہوتا ہے تو وہ صرف گوشت اور ہڈیوں کا زندہ مجسمہ ہوتا ہے۔ دھیرے دھیرے وہ خاندان کے افراد سے رابطے میں آتا ہے اور حیاتیاتی وجود سے سماجی وجود میں بدل جاتا ہے۔ خاندان میں والدین اور بچے کا رشتہ، والدین کے بچے کا رشتہ اور بچوں کا باہمی تعلق بھی سماجی کاری کے عمل کو متاثر کرتا ہے۔ ان کے اثرات کو ہم درج ذیل طریقے سے سمجھ سکتے ہیں۔
(a) والدین اور والدین کا رشتہ – تمام معاشروں کے خاندانوں میں والدین کا کردار بہت اہم ہے۔ باپ بچوں کو اہم رہنمائی فراہم کرتا ہے اور ماں بچوں کو اظہار خیال کرتی ہے۔ باپ ایک متلاشی رہنما کے طور پر فارم اور کاروبار کا مالک ہے اور شکار میں بھی رہنما ہے، جب کہ ماں خاندان میں ثالث کا کام کرتی ہے۔ سمجھوتہ کرنے اور جھگڑے اور انتشار کو دور کرنے کا کام ماں ہی کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ بچوں کے لیے پیار کرنے والی، قریبی، مہربان اور جذباتی ہے۔ بیٹا باپ جیسا بننا چاہتا ہے اور بیٹی ماں جیسی بننا چاہتی ہے۔ اس طرح یہ کہا جا سکتا ہے کہ والدین کا اثر بچوں پر بہت زیادہ ہوتا ہے۔ اگر ان کے تعلقات میں دراڑ یا خلاء پیدا ہو جائے تو اس کا اثر بچوں کی شخصیت پر پڑتا ہے۔ جس گھرانے میں والدین کے درمیان جھگڑا اور اختلاف ہو، اس خاندان کے بچوں میں توازن کی کمی ہوتی ہے۔ اگر میاں بیوی خاندان میں پیار اور تعاون کا رشتہ برقرار رکھیں تو اس کا بچوں پر بہت اچھا اثر پڑتا ہے اور وہ متوازن زندگی گزارنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ بچوں کی اخلاقیات کی نشوونما بھی خاندان میں ہوتی ہے۔ جن گھرانوں میں والدین اخلاقی نظریات پر زور دیتے ہیں، ان خاندانوں میں بچوں میں اعلیٰ اخلاق ہی پیدا ہوتے ہیں۔
(b) والدین اور بچوں کے درمیان تعلق – خاندان میں صرف والدین کا رشتہ ہی نہیں بلکہ والدین اور بچوں کا رشتہ ان کی شخصیت پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ جب والدین بچوں کو کافی پیار دیتے ہیں، ان کی ضروریات اور ضروریات پر توجہ دیتے ہیں، تو وہ خود کو محفوظ محسوس کرتے ہیں۔ اگر والدین بچے کو مناسب پیار نہیں دیتے، اس کی ضروریات پوری نہیں کرتے تو وہ خود کو غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں۔ والدین بچوں کو حقارت اور نظر اندازی سے دیکھیں تو بچوں میں احساس کمتری پیدا ہوتا ہے۔ بعض اوقات وہ فطرتاً انتقامی بھی ہو جاتے ہیں اور معاشرے سے انتقام کا جذبہ ان میں بیدار ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس ضرورت سے زیادہ لاڈ پیار بچوں کو لاپرواہ اور غیر ذمہ دار بنا دیتا ہے۔ وہ دوسروں سے توقع رکھتے ہیں، لیکن خود غرض اور خود غرض بن جاتے ہیں۔ بعض اوقات یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ والدین اپنے تمام بچوں کو برابر نہیں دیکھتے، ان کے ساتھ امتیازی سلوک کرتے ہیں۔ بچوں کے ساتھ اس قسم کا برتاؤ ان کی شخصیت کو متاثر کرتا ہے۔ جس کو زیادہ پیار ملتا ہے وہ بدمعاش بن جاتا ہے اور جس کو پسند نہیں کیا جاتا وہ بے حیا اور شرمیلا ہو جاتا ہے۔ اس کے ساتھ بچوں میں حسد اور دشمنی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ کمبال ینگ نے اس تناظر میں کہا ہے، "بچے کی بنیادی سماجی کاری صرف خاندان میں ہوتی ہے۔ تمام بنیادی خیالات، صحت مند، مہارت اور اصول صرف خاندان میں ہی حاصل کیے جاتے ہیں۔”

(c) بچوں کا باہمی تعلق – بچوں کا باہمی تعلق بھی ضروری ہے۔ بچوں کے باہمی تعلق سے مراد بھائی بہن اور بہن کا رشتہ ہے۔ اس کے علاوہ بچوں کی پیدائش کی ترتیب کا اثر ان کی شخصیت پر بھی پڑتا ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ خاندان کا پہلا بچہ تنہا تمام سہولیات سے لطف اندوز ہونا چاہتا ہے۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ایک عرصے تک اسے اکیلے ہی سب کی محبت ملتی ہے۔ ہر طرح کی آسائشوں سے لطف اندوز ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں وہ خود غرض بھی ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس خاندان کا سب سے چھوٹا بچہ سب کو پیارا ہوتا ہے۔ چونکہ اس کی محبت میں شریک ہونے والا کوئی دوسرا بچہ نہیں ہوتا، اس لیے ایسے بچوں کی بچکانہ پن آہستہ آہستہ ختم ہو جاتی ہے۔ درمیانی بچے مسابقتی رجحان کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ بچے کبھی اپنا موازنہ بڑے بچوں سے کرتے ہیں اور کبھی چھوٹے بچوں سے۔ ہر وقت وہ محسوس کرتے ہیں کہ جتنی محبت انہیں مل رہی ہے وہ کافی نہیں ہے، وہ بڑے اور چھوٹے میں تقسیم ہو جاتی ہے۔ اگر خاندان میں کوئی بچہ بد اخلاقی کا شکار ہو جائے تو اس کا دوسرے بچوں پر بھی برا اثر پڑتا ہے۔ اس کے برعکس اگر کوئی بچہ آگے بڑھتا ہے تو دوسرے بچے بھی آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ خاندان کی سماجی حیثیت بھی بچوں کی نشوونما پر اثر انداز ہوتی ہے۔ مندرجہ بالا بحثوں سے واضح ہوتا ہے کہ خاندان سماجی کاری کی بنیاد ہے۔ ڈیوس نے سوشلائزیشن میں خاندان کے کردار کو بھی واضح کیا اور کہا کہ ’’سماجی ہونے کے ابتدائی مراحل گھر سے شروع ہوتے ہیں۔‘‘ سیموئیل کے مطابق ’’بنیادی طور پر وہ گھر ہوتا ہے جہاں دل کھلتا ہے، عادات بنتی ہیں۔‘‘ عقل بیدار ہوتی ہے اور اچھے یا برے کردار کو ڈھالا جاتا ہے۔ "خاندان میں، بچے کو وہ تعلیم ملتی ہے جو اس کے مطابق ہو۔

یہ ایک مثالی شہری بننے میں مدد کرتا ہے اور معاشرے کے مختلف حالات میں بھی مدد کرتا ہے اور میل ملاپ سکھاتا ہے۔
پلے گروپ (پلے یا پیر گروپ) – خاندان کے بعد پلے گروپ کی جگہ آتی ہے، جو سوشلائزیشن کے عمل میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ کھیل – گروپ کو کھیل یا دوستوں کا گروپ بھی کہا جاتا ہے۔ خاندان کو چھوڑ کر بچہ اپنی عمر کے دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلتا ہے۔ اس پلے گروپ میں بچہ کھیل کے اصولوں پر عمل کرنا سیکھتا ہے جس کے نتیجے میں وہ اسے قابو میں رہنا اور نظم و ضبط پر عمل کرنا سکھاتا ہے۔ نتیجے کے طور پر، وہ زندگی کے مختلف شعبوں اور حالات میں ضبط اور نظم و ضبط میں رہتا ہے۔ یہ خوبی اسے دوسروں کے لیے رہنما بناتی ہے۔ خاندان میں بچوں کو تحفظ اور محبت ملتی ہے لیکن پلے گروپ میں ان میں منفی حالات سے ہم آہنگ ہونے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ ان گروپوں کے بچوں کی عادات، دلچسپیاں، رویے اور خیالات مختلف ہوتے ہیں کیونکہ وہ مختلف خاندانوں سے آتے ہیں۔ کھیل کے ذریعے، بچے سب کے ساتھ تعلقات قائم کرتے ہیں۔ اگر وہ کھیل کے دوران ہار جاتا ہے تو وہ تحمل سے کام لیتا ہے۔ نتیجے کے طور پر، اس کے ذریعے وہ زندگی میں آنے والی مشکلات اور ناکامیوں کے بعد بھی خود پر قابو رکھنا سیکھتا ہے۔ جب کوئی بچہ کھیل کے اصولوں کی خلاف ورزی کرتا ہے تو دوسرے بچے اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ وہ مل کر کھیل کے اصولوں پر عمل کرنے پر زور دیتے ہیں۔ یہ رویہ بچوں کے رویے کو کنٹرول اور ہدایت کرتا ہے۔ اپنے ساتھیوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے بچے میں قیادت، ذمہ داری لینے کی صلاحیت، فرائض کی انجام دہی؛ کسی کی غلطی ماننے کی عادت وغیرہ اوصاف پیدا ہو جاتے ہیں۔ یہ تمام خوبیاں بچے کی شخصیت کی بنیاد فراہم کرتی ہیں۔ رجمان کا کہنا ہے کہ اسپورٹس گروپ موجودہ دور میں سماجی کاری کے لیے ایک اہم گروپ ہے کیونکہ آج کل انسان رہنمائی اور رہنمائی کے لیے ہم عمر افراد پر زیادہ انحصار کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان میں سے اکثر اپنے فیصلوں کے لیے دوستوں کے مشوروں کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ جن بچوں کو دوستوں کا گروپ نہیں ملتا، وہ کھیل نہیں پاتے، وہ آزادانہ طور پر ترقی نہیں کرتے۔
پڑوس – تیسرا مقام خاندان اور کھیلوں کے گروپ کے بعد آتا ہے۔ بچے پڑوسیوں کے ساتھ رابطے میں آ کر بہت کچھ سیکھتے ہیں۔ ان کے خیالات، نظریات، عقائد، اعمال اور مشورے بچوں کی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ پڑوسی بچوں سے خاص پیار کرتے ہیں۔ تو وقتاً فوقتاً ان کے رویے کی تعریف یا تنقید کرتے رہیں۔ پڑوسی کے طنز و مزاح کے ذریعے بچے اپنے معاشرے کی روایات اور رسم و رواج کے مطابق برتاؤ کرنا سیکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ اپنے محلے میں اچھے لوگوں کا ہونا ضروری سمجھتے ہیں۔ بچے محلے کے لوگوں کے رویے کی نقل کرتے ہیں۔ محلہ ایک طرح سے بڑھے ہوئے خاندان کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔
کنشپ گروپ – رشتہ داری کے گروپ میں وہ تمام رشتہ دار شامل ہیں، جو ایک دوسرے سے خون اور شادی کے رشتوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر، والدین، بھائی بہن، شوہر اور بیوی، ساس اور سسر، بہنوئی۔ -سسرال، بھابھی، چچا چچی، ماموں چچی وغیرہ۔ان رشتہ داروں کے خیالات، برتاؤ اور مشورے بچوں کی شخصیت پر اثر انداز ہوتے ہیں، ان سے رابطے میں آنے سے بچے سیکھتے رہتے ہیں۔ کردار نبھاتے ہوئے وہ سیکھتا ہے کہ کس کے ساتھ قریبی تعلقات رکھنے ہیں، کس کے ساتھ مذاق اور مذاق یا دوری ہے، وہ ان رشتوں سے سیکھتا ہے کہ کس کو عزت، پیار اور پیار دینا ہے۔شادی کے بعد تعاون پر مبنی زندگی سیکھتی ہے۔ اس طرح اس کی مجموعی شخصیت پروان چڑھتی ہے۔یہ سب سماجی بنانے کے بنیادی ذرائع ہیں۔ان کے علاوہ ثانوی ذرائع کا بھی ایک اہم مقام ہے۔کچھ اہم ادارے جو ثانوی ذرائع کے طور پر اپنا حصہ ڈالتے ہیں وہ درج ذیل ہیں۔
تعلیمی ادارے‘ سکول، کالج اور یونیورسٹی وغیرہ تعلیمی اداروں کے تحت آتے ہیں۔ تعلیم کا سب سے بڑا ذریعہ کتاب ہے۔ جس سے بچوں میں نیا علم اور ذہانت پیدا ہوتی ہے۔ اس دوران بچوں کی عادتیں بنتی ہیں۔ جو زندگی کے لیے ضروری ہے۔ تعلیمی اداروں کے اپنے اصول اور طریقہ کار ہوتے ہیں، جن پر طلبہ کو عمل کرنا ہوتا ہے۔ طلباء اپنے معیار کے مطابق خود کو ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بچوں کی ذہنی اور فکری صلاحیتیں وہاں کی پڑھائی سے پروان چڑھتی ہیں۔ کتابوں کے ذریعے وہ مختلف کاموں اور مختلف ثقافتوں اور ان کے کارناموں کا علم حاصل کرتے ہیں۔ تعلیمی اداروں کے افراد مناسب – نامناسب۔ پریکٹیکل سے نظریاتی امتیاز کا علم حاصل کرنے کے قابل ہے۔ تعلیمی اداروں کی اہمیت زمانہ قدیم سے چلی آ رہی ہے۔ پہلے لوگ گرو کے گھر جا کر تعلیم حاصل کرتے تھے، اب لوگ سکولوں کالجوں میں جا کر علم حاصل کرتے ہیں۔ اس طرح یہ بات واضح ہے کہ تعلیمی ادارے ہمیشہ سے سماجی کاری کے عمل میں اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں۔
, ثقافتی ادارے – ثقافتی اداروں کا بھی سماجی کاری کے عمل میں بہت زیادہ حصہ ہوتا ہے۔ ثقافتی اداروں کا کام فرد کی سماجی کاری اور اس کی شخصیت کے بگاڑ میں اہم کردار ادا کرنا اور اسے معاشرے کی ثقافت سے متعارف کرانا ہے۔ ثقافت کے تحت علم، عالمی مشق، اخلاقیات اور قانون۔ مثالی اقدار وغیرہ انسان کی شخصیت کو ایک خاص سمت فراہم کرتی ہیں۔

چلو کرتے ہیں درحقیقت انسان سوشلائزیشن کے عمل کے تحت جو خوبیاں، خیالات اور طرز عمل سیکھتا ہے، وہ سب ثقافت کے تحت آتے ہیں۔ ثقافت انسانی رویوں کو نکھارتی ہے۔ ثقافت کی مدد سے انسان ایک جاندار کے طور پر جنم لیتا ہے اور انسان یعنی سماجی وجود بنتا ہے۔ رابرٹ بیئرسٹیڈ نے اس تناظر میں کہا ہے کہ ’’ہم پیدائشی طور پر انسان نہیں ہیں بلکہ اپنی ثقافت کو حاصل کر کے انسان بنتے ہیں۔‘‘ اس طرح ثقافت اور ثقافتی ادارے فرد کی سماجی کاری میں بہت اہم ہوتے ہیں۔
پیشہ ورانہ گروپ اس پیشے کی اقدار کو بھی جذب کرتا ہے جس میں ایک شخص مصروف ہے۔ وہ اپنے کاروبار کے دوران بہت سے لوگوں سے رابطہ کرتا ہے اور ان کی خوبیوں اور خصوصیات کو جانتا ہے اور ان کو اپناتا ہے۔ اس طرح کاروبار سے متعلق ہر شخص چاہے وہ افسر ہو یا ایجنٹ، منیجر ہو یا گاہک، ہر ایک سے کچھ نہ کچھ سیکھتا ہے جس کی وجہ سے اس کے رویے میں نکھار آتا ہے۔
ذات اور طبقہ: کسی فرد کی سماجی کاری میں ذات اور طبقے کے کردار سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ہر ذات کے کھانے، پینے، رہن سہن وغیرہ سے متعلق اپنے طرز عمل، روایات، عقائد، خیالات، احساسات اور طرز عمل ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف ذاتوں کے لوگوں کی شخصیت میں کچھ فرق ہوتا ہے۔ مختلف ذاتوں کی رسومات بھی مختلف ہیں جس کی وجہ سے ان کی سماجی کاری مختلف طریقے سے کی جاتی ہے۔ اسی طرح ہر طبقے کا رہن سہن، طرز عمل، خیالات اور احساسات مختلف ہوتے ہیں، جو انسان کی شخصیت کو متاثر کرتے ہیں۔ اس طرح یہ واضح ہے کہ ذات اور طبقے سماجی کاری کے عمل کو اپنے طریقے سے سمت دیتے ہیں۔
سیاسی ادارے – سیاسی اداروں کا بھی سوشلائزیشن میں اہم کردار ہوتا ہے۔ ریاست انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کو متاثر کرتی ہے۔ سیاسی ادارے ایک شخص کو قانون، حکمرانی اور نظام انصاف سے متعارف کراتے ہیں۔ انسان کو اس کے حقوق اور فرائض سے آگاہ کرتا ہے۔ جدید پیچیدہ معاشروں میں، جہاں افراد کے درمیان باہمی تعلقات رسمی اور بالواسطہ ہوتے ہیں، ریاست کا کردار افراد کے رویے کے تعین، انضباط اور کنٹرول میں بہت اہم ہوتا ہے۔ جدید دور میں خاندان کے بہت سے اہم کام ریاست کی طرف سے پورے کیے جا رہے ہیں۔ جس کے نتیجے میں ریاست کی اہمیت روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔ ریاست کے ساتھ ساتھ اس کی عدلیہ بھی ہے جس کے ذریعے ریاست کے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرنے والے کو سزا دی جاتی ہے۔ اس کی وجہ سے لوگ نظم و ضبط کے ساتھ رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔
معاشی ادارے – سماجی کاری میں معاشی اداروں کے کردار سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ معاشی ادارے انسان کو جینے کے قابل بناتے ہیں۔ معاشی اداروں کا تعلق نظام پیداوار، پیداواری قوتوں، پیداوار کی نوعیت، کھپت کی نوعیت، تقسیم کا نظام، معیار زندگی، کاروباری سائیکل، اقتصادی پالیسیاں، صنعت کاری، محنت کی تقسیم، معاشی مسابقت وغیرہ سے ہے۔ ان سب کا اثر انسان کے باہمی تعلقات، خیالات پر پڑتا ہے۔ یہ عقائد وغیرہ پر منحصر ہے۔ مثال کے طور پر زرعی معیشت میں معاشی مسابقت نہیں پائی جاتی جبکہ صنعتی نظام میں شدید معاشی مسابقت پائی جاتی ہے۔ معاشرے کے معاشی حالات کا اثر شادی اور خاندان کی قسم، سائز اور کام پر پڑتا ہے۔ اس طرح یہ واضح ہے کہ معاشی ادارے فرد کی سماجی کاری کے عمل کو متاثر کرتے ہیں۔
مذہبی ادارے – مذہبی اداروں کا انسان کی زندگی پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ گناہ، نیکی، کرما پنر جنم اور جہنم جنت کے تصورات مذہب کے تحت آتے ہیں۔ مذہبی ادارے انسان کو صحیح، نیک اور مذہبی کام کرنے کی ترغیب دیتے ہیں اور نامناسب، گناہ، غیر مذہبی اور سماج دشمن کام نہ کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ مذہبی ادارے انسان میں پاکیزگی، امن، عدل، حسن کردار اور سکون پیدا کرتے ہیں۔ جیسے جیسے ان میں خوبیاں پیدا ہوتی ہیں۔ مذہب انسان کو مافوق الفطرت طاقت کا خوف دکھا کر سماجی اصولوں پر عمل کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ ڈیوس کا کہنا ہے کہ مذہب معاشرے اور شخصیت کے تال میل میں مدد کرتا ہے۔ سماجی کاری کے ذریعہ مذہب کسی فرد کی شخصیت کی نشوونما میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔


جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے