اقتصادی عزم Economic Determinism 


Spread the love

اقتصادی عزم

Economic Determinism 

(اکنامک ڈیٹرمنزم)

‘نظام کی تنقید’ (سیاسیات کی تنقید) اہم کام ہے جس میں اس نے انسانی تعلقات اور

سیاسی ڈھانچے پر معاشی نظام کو ترجیح دی۔ یہ درست ہے کہ سیاسی معیشت سے متعلق نظریات بھی مارکس کو معاشی تعین کرنے والے کے طور پر بیان کرتے ہیں، لیکن یہ ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ مارکس کا معاشی تعین مطلق نہیں ہے بلکہ یہ بہت زیادہ رشتہ دار ہے۔ اس کتاب میں جہاں ایک طرف مارکس نے معاشرے کی ساخت اور نظریے پر معاشی نظام کے اثرات کو واضح کیا ہے وہیں دوسری طرف اس کا مقصد معاشرے کی طاقت اور نوعیت کے تعین میں معاشی عوامل کے اثر و رسوخ کو واضح کرنا ہے۔ حالت. اس کتاب میں مارکس نے وضاحت کی کہ پیداوار اور تقسیم کا معاشی نظام یا پیداوار کے تعلقات معاشرے کا بنیادی ڈھانچہ (انفرا سٹرکچر) تشکیل دیتے ہیں۔ معاشرے کے اس بنیادی ڈھانچے کے مطابق دیگر سماجی اداروں کی شکل کا تعین کیا جاتا ہے۔ ان سماجی اداروں میں ریاستی اور سائنسی اداروں کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ مارکس کے خیال کو مزید واضح کرتے ہوئے ان کے دوست اور شریک مصنف فریڈرک اینگلز نے لکھا ہے کہ ’’معاشی ترقی کی حالت میں ریاست میں بہت سے ادارے بنتے ہیں، جن میں معاشی تبدیلی کے ساتھ ساتھ قانونی اداروں کی نہ صرف شکل بدل جاتی ہے، بلکہ معاشرے میں مذہب اور فن سے متعلق نظریات میں تبدیلی آ رہی ہے۔” 19 اس طرح سماجی اور سیاسی اداروں پر معاشی عوامل کے اثرات، جنہیں مارکس نے واضح کیا، انہیں مندرجہ ذیل چار حصوں میں تقسیم کر کے واضح کیا جا سکتا ہے۔

(1) معاشی نظام اور معاشرہ – مارکس نے واضح کیا کہ کسی بھی معاشرے میں موجود معاشی نظام ہی اس معاشرے کی اصل بنیاد ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ معاشی نظام معاشرے کا بنیادی ڈھانچہ ہے۔ اس معاشرے میں پائے جانے والے اقدار، رسم و رواج، ثقافت، قوانین، قواعد و ضوابط وغیرہ وہ سپر اسٹرکچر ہیں جو بنیادی ڈھانچے کی نوعیت کے مطابق تیار ہوتے ہیں۔ مارکس کہتا ہے کہ جن معاشی حالات کی بنیاد پر سماج کا بنیادی ڈھانچہ تشکیل پاتا ہے، وہاں ذرائع پیداوار اور پیداوار کے طریقوں کی جگہ بہت اہم ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ذرائع پیداوار کی ملکیت اور مزدوری کے تعلقات کی بنیاد پر معاشرے کا بنیادی ڈھانچہ تعمیر ہوتا ہے۔ تعمیر وہ ہوتی ہے جس میں سماجی اقدار، رسم و رواج، مذہب، قانون، تعلیم اور سیاست وغیرہ شامل ہوں۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے مارکس نے بتایا کہ جب سماج میں قدیم کمیونزم کی حالت تھی تو وہ بنیادی طور پر ایک غیر پیداواری معاشرہ تھا۔ معاشی طور پر اس زمانے میں لوگ فطرت سے حاصل ہونے والے عوامل کو جانوروں کی طرح استعمال کرتے تھے۔ اس مرحلے میں اسلحہ انسان کی پہلی ملکیت بن گیا جسے طاقتور/قانون کمزوروں کے استحصال کے لیے استعمال کرتا تھا۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ اس وقت کے ہتھیار اور اوزار پیداوار کے ذرائع تھے جنہوں نے معاشرے میں ایک خاص قسم کا بنیادی ڈھانچہ پیدا کیا۔ انہی کی بنیاد پر اس وقت کے معاشرے میں جو معاشرتی اقدار قائم ہوئیں وہ موجودہ معاشرے کی اقدار سے بالکل مختلف تھیں۔

جاگیردارانہ معیشت اور سرمایہ دارانہ معیشت میں ذرائع پیداوار اور پیداوار کے طریقوں میں بنیادی فرق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان دونوں نظاموں میں معاشرہ کے بنیادی ڈھانچے کی شکل ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہے۔ جاگیردارانہ معاشی نظام میں تشکیل پانے والے سماج کے ذیلی ڈھانچے میں طاقت کے روایتی ذرائع – غلامی یا بندھوا مزدور شامل تھے۔ دوسری طرف سرمایہ دارانہ نیم نظام نے ایک ایسا انفراسٹرکچر بنایا جس میں انفرادی آزادی اور دولت جمع کرنے کو خصوصی اہمیت دی گئی۔ اس بنیاد پر مارکس نے بتایا کہ ہر دور میں پیداواری تعلقات کی بنیاد پر بننے والے بنیادی ڈھانچے اور اس کے ذیلی ڈھانچے کے درمیان ٹکراؤ ہوتا ہے۔ اس کشمکش کے نتیجے میں ایسی حالت پیدا ہوتی ہے جسے ہم انقلاب کہتے ہیں۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ہر معاشرہ دو اہم حصوں میں بٹا ہوا ہے، جن میں سے ایک کو ہم اس کا بنیادی ڈھانچہ اور دوسرے کو اس کا ذیلی ڈھانچہ کہتے ہیں۔ بنیادی ڈھانچہ اقتصادی تعلقات کی بنیاد پر بنتا ہے جبکہ ذیلی ڈھانچے میں سماجی، قانونی اور دیگر تعلقات شامل ہیں۔ معاشرے کے اس بنیادی ڈھانچے اور ذیلی ڈھانچے میں تضادات ہیں، جس کے نتیجے میں انقلاب جنم لیتا ہے۔

(2) معاشی نظام اور نظریات سیاسی معیشت کی تنقید میں مارکس نے صرف معاشی نظام کی بنیاد پر نظریات کی تشکیل کے عمل کی وضاحت کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ فلسفہ، سیاست، اقدار اور مذہب سے متعلق نظریے کی شکل صرف معاشی نظام کی بنیاد پر طے ہوتی ہے۔ کامٹے اور ہیگل پر تنقید کرتے ہوئے مارکس نے نشاندہی کی کہ سماجی ڈھانچے میں ترقی نظریات کے نتیجے میں نہیں ہوتی بلکہ یہ تغیر پذیر طبعی حالات ہیں جو نئے خیالات کو جنم دیتے ہیں اور ترقی کی صورت میں تبدیلیاں پیدا کرتے ہیں۔ اس نقطہ نظر سے نظریات کا تعلق معاشرے کے سپر سٹرکچر سے ہے جبکہ معاشرے کا بنیادی ڈھانچہ صرف معاشی حالات سے بنتا ہے۔ مارکس نے واضح کیا کہ ایک خاص دور میں

کسی معاشرے کا نظریہ یا آئیڈیل اس زمانے کے غالب طبقے کے افکار کا عکس ہوتا ہے۔ 20 اپنے بیان کی وضاحت کرتے ہوئے مارکس نے لکھا ہے کہ "ہر دور میں لوگوں کو کنٹرول کرنے والے نظریات یا معاشرے پر حکمرانی کرنے والے اصول اسی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جو بیک وقت نہ صرف مادی قوتوں کا مالک ہے بلکہ اس کا کنٹرول بھی ہے۔ فکری طاقتیں

دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ سرمایہ دار طبقہ جو معاشی ذرائع کا بھی مالک ہے، سرمایہ کی طاقت سے فکری طاقت بھی خرید لیتا ہے۔ معاشرے میں جو طبقہ معاشی طور پر غالب ہوتا ہے وہ ایسا نظریہ تیار کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے جو اس کے مفادات کے موافق ہو۔ اس طرح یہ واضح ہے کہ مادی توانائی وہ بنیاد ہے جو خیالات کو کنٹرول کرتی ہے۔ یہ واضح ہے کہ مریخ نے معاشی عوامل کو معاشرے میں پائے جانے والے نظریے کے فیصلہ کن عوامل کے طور پر قبول کیا ہے۔ اس تناظر میں اپنے پیروکاروں کو متنبہ کرتے ہوئے مارکس نے لکھا ہے کہ ’’اگر ہم یہ ماننا شروع کر دیں کہ حکمران طبقہ ایک الگ وجود رکھتا ہے اور معاشرے کے نظریے کو اپنی طاقت سے الگ رکھتا ہے، تو ہم تاریخی عمل کو ٹھیک سے نہیں سمجھ پاتے۔‘‘ STATQUADYCAMERA کے مطابق۔ معاشی عوامل اور نظریے کے درمیان گہرا تعلق ہے اور ہر معاشی طاقت اپنے مفادات کے مطابق نظریے کو ایک خاص شکل دینے کی کوشش کرتی ہے۔

(3) اقتصادی عوامل اور طاقت (Economic Factors and Power) طاقت سیاسی نظام کی ایک بڑی بنیاد ہے۔ Bottomore نے بھی طاقت کو ‘سیاست کا مرکزی نقطہ’ قرار دیا ہے۔ پارسنز طاقت کو ایک ایسے عنصر کے طور پر قبول کرتا ہے جو حکمران اور حکمران کے درمیان توازن برقرار رکھتا ہے۔ آپ کے نزدیک طاقت ہی وہ بنیاد ہے جس کی وجہ سے حکمران اور حکمران دونوں معاشرے کے مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے کام کرتے ہیں۔ ان خیالات کے بالکل برعکس کارل مارکس نے واضح کیا کہ طاقت ایک ایسا عنصر ہے جسے معاشی طور پر غالب طبقہ اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتا ہے۔ SAR مارکسی نقطہ نظر سے، معاشرے میں طاقت کا سرچشمہ معاشرے کے اقتصادی ڈھانچے میں مضمر ہے۔ 23 اس کی وضاحت کرتے ہوئے مارکس نے کہا کہ ہر طبقے میں بٹے ہوئے معاشرے میں پیداواری قوتیں چند لوگوں کے ہاتھوں میں مرکوز ہوتی ہیں۔ یہ لوگ بھی حکمران طبقے کے نمائندے ہیں۔ پیداواری قوتوں کی وجہ سے معاشرے میں جو بالادست طبقے کے غلبے یا اقتدار کی تشکیل ہوتی ہے اس کی وجہ پیداواری قوتوں پر ان کا اثر و رسوخ ہے۔ حق ہونا چاہیے۔ اس نقطہ نظر سے اقتدار کی بات صرف اقتصادی بنیادوں پر کی جا سکتی ہے۔ آسان الفاظ میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ جس طبقے کے پاس سرمایہ ہے، وہی طبقہ معاشرے میں طاقتور ہے۔

اسی بنیاد پر مارکس نے لکھا کہ ’’اگر اقتدار کو عوام تک واپس منتقل کرنا ہے تو عوام کو اجتماعی طور پر پیداواری اختیارات اپنے ہاتھ میں لینے چاہئیں۔‘‘ یہ صرف طبقات کا استحصال کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ استحصال کے اس عمل میں بورژوا طبقہ پرولتاریہ کو زیادہ سے زیادہ پیداوار دیتا ہے اور انہیں کم از کم اجرت دیتا ہے۔ مارکس کہتا ہے کہ طاقتور طبقے کے ذریعے کیے جانے والے استحصال کو جبر کی ایک خاص شکل کہا جا سکتا ہے۔ اگر سماج کا پرولتاریہ طبقہ اپنے مفادات کے خلاف بورژوا طبقے کے استحصال کی اجازت دیتا ہے، تو یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ سماج کا ذیلی ڈھانچہ طاقت کے استعمال پر مبنی ہے۔ اس حالت کو اس صورت میں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ اگر طاقت کے استعمال کو سماجی ڈھانچے کی طرف سے تسلیم نہیں کیا جا رہا ہے، تو پرولتاریہ کبھی بھی اس استحصال کو قبول نہیں کرے گا جو بورژوا یا غالب طبقے کے ذریعے کیا جاتا ہے۔

مارکس نے لکھا کہ اگر معاشرہ بورژوا طبقے کی طاقت کو اپنی قانونی طاقت کے طور پر قبول کرتا ہے، تو اس حالت کو ‘غلط طبقاتی شعور’ ہی کہا جا سکتا ہے۔ مارکس نے واضح کیا کہ تسلط کے جو رشتے سماج کے بنیادی ڈھانچے یا معاشی ڈھانچے میں استحصال اور جبر کی صورت میں پروان چڑھتے ہیں وہ معاشرے کے سپر اسٹرکچر میں دھیرے دھیرے واضح طور پر نظر آنے لگتے ہیں۔ مثال کے طور پر، سرمایہ دارانہ معاشرے میں آجر اور ملازم کے درمیان پائے جانے والے غیر مساوی تعلقات کی جھلک وہاں کے قانونی نظام میں نظر آتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر سرمایہ دارانہ معاشرے میں قانون سازی اور قوانین کے ذریعے صرف جائیداد کے مالکان کے مفادات کا تحفظ کیا جاتا ہے۔

مارکس کے اس بیان سے واضح ہوتا ہے کہ سرمایہ دارانہ مساوات کے معاشی نظام میں پائے جانے والے غیر مساوی تعلقات کے نتیجے میں ایسی عدم مساوات کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے جسے قانونی حیثیت حاصل ہے۔ اس طرح جب سماج کے اعلیٰ طبقے کو عام آدمی کا استحصال کرنے کی قانونی اجازت مل جاتی ہے تو اس کی طاقت پھیلنے لگتی ہے۔ مندرجہ بالا بحث سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ مارکس معاشی قوتوں یعنی پیداواری قوتوں کو سماجی طاقت کی بنیادی بنیاد سمجھتا ہے۔ ساتھ ہی مارکس یہ بھی قبول کرتا ہے کہ معاشی بنیادوں پر حاصل کی گئی طاقت معاشرے کے دوسرے اداروں کو بھی متاثر کرتی ہے۔

(4) اقتصادی عوامل

اور ریاست (اقتصادی عوامل اور ریاست) ہم جانتے ہیں کہ مارکس نے صرف اس وقت کی انگلستان کی معیشت کی بنیاد پر اپنے خیالات پیش کیے تھے۔ اپنے معاشی اصولوں پر بحث کے لیے مارکس نے اس وقت کے کچھ نظریات کو تسلیم کیا اور بہت سے دوسرے نظریات کی بھی سختی سے تردید کی۔ پرودھون اور بکونین مریخ کے معاصر مفکرین میں ممتاز انارکسٹ مفکرین تھے۔ اسکالرز نے بھی عصری سماجی سوچ کو متاثر کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ جہاں ان آرکیسٹ مفکرین (انارکسٹ) ریاست کو ایک ضروری برائی کے طور پر دیکھتے تھے، مارکس نے معاشی سیاسی فکر کے ذریعے ریاست کے تصور کو ایک مختلف انداز میں واضح کیا۔ اس حوالے سے ریمنڈ آرون نے لکھا ہے کہ مارکس کے پیش کردہ سیاست کے تصور اور ریاست کے غائب ہونے سے متعلق نظریات نے مجھے ان کے دیگر سماجی نظریات سے زیادہ متاثر کیا۔ سیاسی معیشت سے متعلق مارکس کے افکار کی اہمیت ریمنڈ ایر کے اس بیان سے واضح ہو جاتی ہے۔ اس نقطہ نظر سے، ریاست کے بارے میں مارکس کے نظریات کے اہم حصوں کو مختصراً سمجھنا ضروری ہے۔

شروع میں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ مارکس ریاست کی ناگزیریت کو قبول کرتا ہے۔ مارکس نے نشاندہی کی کہ جدید دور میں کچھ انتظامی کام ہیں جو ہر معاشرے کے لیے ضروری ہیں۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ صنعتی معاشرے انتظامی ڈھانچے کے بغیر نہیں چل سکتے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ صنعتی معاشروں میں بھی ایک خاص قسم کی مرکزی انتظامیہ کا ہونا ضروری ہے۔ معاشرے کی اقتصادی ترقی کے منصوبوں کے لیے مرکزی انتظامی ڈھانچہ بھی ضروری ہے۔ مارکس کا خیال ہے کہ ریاست معاشرے کے انتظامی اور سمت دینے والے افعال کی ایک مشترکہ شکل ہے، اس لیے کسی بھی معاشرے میں ریاست کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے بعد بھی مارکس ریاست کی موجودہ شکل کو ایک برائی کے طور پر دیکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مارکس کے پیش کردہ نظریات غیر متضاد معاشروں میں ریاست کے معدوم ہونے سے متعلق ایک علامتی معنی رکھتے ہیں۔

درحقیقت مارکس یہ نہیں مانتا کہ انقلاب کے بعد بننے والے کمیونسٹ معاشرے میں ریاست مکمل طور پر ختم ہو جائے گی لیکن مارکس کے مطابق ریاست کمیونسٹ معاشرے میں رہے گی لیکن طبقات پر مبنی اس کا کردار تباہ ہو جائے گا۔ یہ ریاست کے غائب ہونے کا علامتی معنی ہے۔ سارم کے مطابق سیاسی نظام اور معاشی نظام کے درمیان تبادلے کا گہرا تعلق ہے۔ کمیونسٹ معاشروں میں سیاسی نظام کی نوعیت معاشی نظام کی طرح خود مختار ہونی چاہیے۔ مارکس کا خیال ہے کہ جس طرح پیداوار اور تقسیم کی ایک الگ تنظیم ہے اور پیداوار کے مسائل کا حل معاشی نظام میں ہی پایا جاتا ہے، اسی طرح سیاسی نظام کو بھی ایسے نظام کی شکل میں ہونا چاہیے۔ ایسا نظام ہونا چاہیے جس کے ذریعے عام آدمی کے مسائل حل ہوں، یعنی سیاست کو اقتدار سے الگ کرنا ضروری ہے۔ ریاست کے وجود کی مخالفت کرتے ہوئے مارکس نے لکھا کہ ’’ریاست کے معدوم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ریاست کا وجود صرف پیداوار اور تقسیم کے ذرائع تلاش کرنے اور ان سے متعلقہ مسائل کی تشخیص تک محدود رہے گا۔‘‘ 28 اس طرح سرمایہ دار طاقت کو چیلنج کررہے ہیں۔ معاشروں میں ریاست کے، بھرس نے ان کوششوں پر زور دیا جن کے ذریعے ریاست کی روایتی طاقت کو انقلاب کے ذریعے تباہ کیا جا سکتا ہے۔

تنقیدی تشخیص۔

سیاسی معیشت سے متعلق مارکس کے نظریات سماجی فکر کے میدان میں خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے سیاسی نظام کا تجزیہ معاشی اصول پسند نظریے کی بنیاد پر پیش کیا۔ مارکس کے علاوہ بہت سے دوسرے ماہرینِ عمرانیات کو بھی متعصب مفکرین کے طور پر سمجھا جاتا ہے، لیکن ان کا عزم مارکس سے بالکل مختلف ہے۔ مثال کے طور پر، سوروکن نے ثقافتی عزم کو تسلیم کیا، جب کہ ویبلن نے تکنیکی عزم پر مبنی سماجی تبدیلی پر بحث کی۔ نظریات کے اس اختلاف کی وجہ سے بہت سے علماء نے سیاسی معیشت سے متعلق مارکس کے نظریات سے اختلاف کا اظہار کیا ہے۔ سوروکین نے مارکس کے خیالات پر تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ معاشرے میں تبدیلی کے بنیادی عوامل ثقافتی ہیں۔

اس نقطہ نظر سے ریاست، اقتدار اور سیاست میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کو معاشی بنیادوں پر بیان نہیں کیا جا سکتا۔ دوسری جانب ویبلن نے واضح کیا کہ سماجی ڈھانچے اور سماجی ترتیب سے متعلق حالات کی وضاحت ٹیکنالوجی میں ہونے والی تبدیلیوں کی بنیاد پر ہی کی جا سکتی ہے۔ میکس ویبر کا شمار ان ممتاز دانشوروں میں ہوتا ہے جنہوں نے طاقت کے تصور اور اس کے مختلف پہلوؤں پر تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے مارکس کے اس بیان کو رد کیا کہ معاشرے میں طاقت کی شکل سرمائے کی بنیاد پر بنتی ہے۔ میکس ویبر نے سماجی ترقی اور تبدیلی کے عنصر کے طور پر کسی بھی تعییناتی نظریے کو قبول نہیں کیا۔ ان کے مطابق، تعیین پسند نظریات سماجی تجزیہ کو یک طرفہ بنا دیتے ہیں۔ ویبر نے اپنی کتاب ‘Protestant Religion and the Spirit of Capitalism’ میں واضح کیا کہ معاشی عوامل معاشرے کے سیاسی اور معاشی نظام کو متاثر کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

ایک شراکت ہے۔

یہ درست ہے کہ میکس ویبر نے معاشی عوامل کی اہمیت کو مکمل طور پر رد نہیں کیا لیکن وہ مارکس کے اس بیان سے متفق نہیں تھے کہ سماجی نظم اور سیاست صرف معاشی عوامل کا نتیجہ ہے۔ ہندوستان کے سیاسی مفکر ڈاکٹر لوہیا نے اپنی کتاب ‘مارکس، گاندھی اور سوشلزم’ میں سیاسی معیشت کے بارے میں مارکس کے نظریات پر تنقید کرتے ہوئے لکھا ہے کہ "انقلاب کے حامی اقتدار تک پہنچنے سے پہلے اور اقتدار تک پہنچنے کے بعد، یہ اپنے آپ میں ایک تضاد ہے۔” یہ سچ ہے کہ ڈاکٹر۔ لوہیا بھی مارکس سے متفق نہیں ہیں کیونکہ ہر سطح پر معاشی عزم کی وجہ سے مارکس کے خیالات میں تضادات پیدا ہوئے ہیں۔ سماجی ترقی کے لیے مہاتما گاندھی کے پیش کردہ ٹرسٹی شپ کے اصول سے یہ بھی واضح ہے کہ سماجی ترقی کے ہر پہلو کو صرف معاشی عوامل کی بنیاد پر بیان نہیں کیا جا سکتا۔ کہ مندرجہ بالا تنقیدوں کے بعد بھی یہ سچ ہے کہ سیاسی معیشت سے متعلق مارکس کے نظریات کو سماجی علوم میں خاص اہمیت حاصل ہے۔ آج بھی سماجیات، سیاسیات اور معاشیات جیسے مضامین سے متعلق بہت سے محققین ان نظریات کی بنیاد پر سماجی واقعات کے بارے میں تجزیہ اور سوچنے میں مصروف ہیں۔


جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے